بحریہ آئیکون ٹاور: ملک ریاض کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ملک کی سب سے بڑے نجی رہائشی ادارے بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض کے خلاف قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچانے کے الزام میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایک ضمنی ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کراچی میں ایک رفاہی مقاصد کے لیے مختص پلاٹ پر بحریہ آئیکون ٹاور کی تعمیر سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔
قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کے خلاف ریفرنس الگ سے دائر نہیں کیا گیا بلکہ سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کے مالک عبدالغنی سمیت دیگر افراد کے خلاف جو جعلی بینک اکاونٹس کے ریفرنس دائر کیے گئے تھے، یہ اسی کا ہی حصہ ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے بانی کے خلاف ضمنی ریفرنس تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا ہے۔جب ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا اس مقدمے میں ملک ریاض کو گرفتار کیا جائے گا جس پر سردار مظفر عباسی کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ چیئرمین نیب یا دیگر اعلیٰ حکام کریں گے۔
قومی احتساب بیورو کے آرڈیننس کے سیکشن 24 کے تحت چیئرمین نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ انکوائری، مقدمے کی تفتیش یا ریفرنس دائر کرنے کے کسی بھی مرحلے پر ملزم کو گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد متعدد افراد کو نیب آرڈیننس کے اسی سیشکن کے تحت گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے۔ گرفتار ہونے والوں میں زیادہ کا تعلق حزب مخالف کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔بحریہ آئیکون ٹاور کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں واقع ہےنیب کی طرف سے دائر کردہ یہ ریفرنس احتساب عدالت کے رجٹسرار آفس میں موجود ہے اور سکروٹنی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسے احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر کے پاس بھجوایا جائے گا جہاں پر جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق ریفرنس زیر سماعت ہے۔
اس ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے علاوہ ان کی بہن اور رکن صوبائی اسمبلی فریال تالپور بھی ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں اور یہ دنوں ملزمان ان دنوں ضمانت پر ہیں۔سردار مظفر عباسی نے دعویٰ کیا کہ ملک ریاض کے خلاف جو ضمنی ریفرنس دائر کیا گیا ہے اس میں ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ان کے مطابق اس ریفرنس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ باغ ابنِ قاسم سے متصل جس زمین پر بحریہ آئیکون ٹاور تعمیر کیا ہے، اسے مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر الاٹ کر کے قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔بحریہ آئیکون ٹاور کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں واقع ہے۔ اس کی 60 سے زیادہ منزلیں ہیں اور یہ تقریباً 17 ہزار مربع گز زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔
اس معاملے کی تفتیش کرنے والے نیب کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ ٹاور گلیکسی انٹرنیشنل نامی کمپنی اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں جس زمین پر تعمیر کیا گیا اس میں ایسی سرکاری زمین بھی شامل ہے جو کہ گلیکسی انٹرنیشنل کو غیرقانونی طریقے سے الاٹ کی گئی۔یہ کمپنی وزیراعلیٰ سندھ کے سابق مشیر ڈاکٹر ڈنشا کی ملکیت ہے جو جعلی اکاونٹس کے مقدمے میں نامزد ملزم ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے فرنٹ مین ہیں۔اہلکار کے مطابق اس زمین میں شامل چار ہزار گز کے رفاہی پلاٹ کے ساتھ ایک اور پلاٹ کراچی میونسپل کارپوریشن کے سابق ڈائریکٹر غلام عارف خان نے مبیبہ طور پر یوسف بلوچ نامی شخص کو فروخت کیا تھا۔
یوسف بلوچ کے وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات کی تھیں جس میں ان کے موکل کو ان الزامات سے بری کردیا گیا تھا تاہم نیب کی طرف سے جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے میں اُنھیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا لیکن اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کر رکھی ہے۔اُنھوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت سے متعلق درخواست کے فیصلے میں کہا ہے کہ یوسف بلوچ نے چار ہزار گز کا پلاٹ قانونی طریقے سے خریدا تھا۔تفتیشی ٹیم کے اہلکار کے مطابق جس وقت یہ پلاٹ فروخت کیا گیا اس وقت جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمے میں نامزد ایک اور ملزم لیاقت قائم خانی پارکوں کی نگہداشت کرنے والے ادارے میں ڈائریکٹر تھے اور اُنھوں نے بھی اس سے متصل فلاحی مقاصد کے لیے مختص پلاٹ پر تعمیرات سے نہیں روکا تھا۔
واضح رہے کہ جعلی اکاونٹس کے ریفرنس میں نیب نے گذشتہ برس سندھ ورکس اینڈ سروسز کے سابق سیکریٹری کو مذکورہ ٹاور کی تحقیقات کے لیے حراست میں لیا تھا جو بعد میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔تفتیشی ٹیم کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ابھی اس ضمن میں تفتیش جاری ہے اور اُنھوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ تفتیش کے دوران مزید افراد کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔