ٹرافی ہنٹنگ: چترال میں مارخور کے شکار پر تنازع ؟

012020204

خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں اس سال کے آغاز پر جب ایک امریکی شہری محکمہ وائلڈ لائف کی مدد سے مارخور کا شکار کرنے کے لیے گیا تو مبینہ طور پر مقامی افراد نے اس شکار کو ناکام بنا دیا۔حکام کا کہنا ہے کہ مقامی افراد نے جان بوجھ کر شکار کے دوران اس کام کے لیے منتخب کردہ مارخور کو بھگایا تاہم مقامی افراد اس سے انکار کرتے ہیں۔اس واقعے کے بعد پولیس نے چترال میں جنگلات کے ضلعی افسر (ڈی ایف او) کی درخواست پر مقامی شہری ڈاکٹر حیدر الملک اور ان کے تین دیگر ساتھیوں کے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا تاہم بعد میں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

ملک میں ہر سال کئی غیر ملکی شکاری محکمہ وائلڈ لائف کی مدد سے مارخور کے شکار اور ٹرافی ہنٹنگ کے مقابلے میں حصہ لیتے ہیں اور اس کی اجازت کے لیے بھاری فیس ادا کرتے ہیں۔چترال وائلڈ لائف کے ڈی ایف او محمد ادریس نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ کی بولی جیتنے والے امریکی شہری کے لیے توشی کے علاقے میں مارخور کی نشاندہی کی گئی تھی۔محمد ادریس کے مطابق اس کے بعد امریکی شہری کو دوسرے علاقے میں شکار کروایا گیا تھا۔دوسری طرف ڈاکٹر حیدر الملک کا موقف ہے کہ انھوں نے مقابلے کے دوران مداخلت نہیں کی بلکہ محکمہ وائلڈ لائف اُن کی اجازت کے بغیر اُن کی زرعی زمینوں پر ٹرافی ہنٹنگ کروا رہا تھا۔’شکار کے لیے جس مارخور کی نشاندہی کی گئی، وہ میرے پہنچتے ہی موقع سے بھاگ گیا اور اس کا الزام مجھ پر لگایا جارہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ مقامی شہریوں کا ایک طویل عرصہ سے محکمہ وائلڈ لائف کے ساتھ ٹرافی ہنٹنگ کی رقم پر تنازعہ چل رہا ہے۔حکام اور شکاری اس مارخور کے ساتھ موجود ہیں جسے شکار کیا گیا پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں چند نایاب جانوروں کے بغیر اجازت کے شکار پر پابندی ہوتی ہے جس کا مقصد جنگلی حیات کا تحفظ یقینی بنانا ہوتا ہے۔80 اور 90 کی دہائی کے دوران دنیا بھر میں قانون کے تحت ٹرافی ہنٹنگ متعارف کروائی گئی اور اسے پاکستان میں 21ویں صدی کے آغاز میں متعارف کروایا گیا۔

گلگت بلتستان سمیت ملک بھر کے محکمہ وائلڈ لائف اخبار میں اشتہار دے کر غیر ملکی شکاریوں کو جنگلی حیات کے شکار کی دعوت دیتے ہیں۔ نہ صرف سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو شکار کی اجازت دی جاتی ہے بلکہ ان کے لیے جانور کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی مدد سے وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔ وائلڈ لائف چترال کے ترجمان کے مطابق شکار سے حاصل ہونے والی رقم کا 80 فیصد حصہ مقامی کمیونٹی پر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ 20 فیصد محکمہ اپنے پاس رکھتا ہے۔

‘اس طریقے سے مقامی لوگوں میں احساس ملکیت پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے مقامی جنگلی حیات کا تحفظ کرتے ہیں۔’محکمہ وائلڈ لائف کے ایک اہلکار کے مطابق صوبہ سندھ میں ہر سال شکار کے 20 لائسنس دیے جاتے ہیں جس میں اڑیال کے پانچ اور آئی بیکس کے 15 لائنس شامل ہوتے ہیں۔ اس سال محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے آئی بیکس کے شکار کے لیے 5500 ڈالر جبکہ اڑیال کے لیے 14 ہزار 500 ڈالر کم از کم رقم مقرر کی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں گذشتہ سال چار آئی بیکس، آٹھ اڑیال اور چار مارخوروں کے شکار کے لیے بالترتیب 2500، 10 ہزار اور 75 ہزار ڈالر اوسط قیمت لگائی گئی۔

صوبہ پنجاب میں اڑیال کے شکار کے سالانہ 16 لائسنس جاری کیے جاتے ہیں جن کی اس سال کم از کم رقم 16 ہزار ڈالر مقرر کی گئی۔ خیبر پختونخوا میں اس سال ماخور کے شکار کے لیے چار لائسنس جاری کے گئے ہیں۔ یہ چاروں لائسنس ڈیڑھ لاکھ ڈالر فی لائسنس کی قیمت پر فروخت ہوئے۔ گلگت بلتستان کے لیے گذشتہ سال سب سے زیادہ لائسنس جاری کیے گئے۔ ان میں 100 آئی بیکس، چار مارخور اور 19 بلیو شیپ شامل ہیں۔ ان میں بلیو شیپ کے لائسنس کی کم از کم قیمت 8100 ڈالر، آئی بیکس 5000 ڈالر جبکہ مارخور کی قیمت ایک لاکھ ڈالر رکھی جاتی ہے۔

پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونے والی رقم کا 80 فیصد مقامی کمیونیٹیز کا حق ہوتا ہے جبکہ 20 فیصد رقم کا حق دار محکمہ ہوتا ہے۔ہمالیائی بلیو شیپ بھی ان جانوروں میں شامل ہے جن کی پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کی جاتی ہے.ڈاکٹر حیدر الملک نے الزام عائد کیا کہ کوہستان کے جس علاقے میں ٹرافی ہنٹنگ ہوتی ہے، وہاں کے واحد مقامی گاؤں کو 80 فیصد حصہ دے دیا جاتا ہے، جب کہ انھیں ان دو سابقہ ٹرافی ہنٹنگ پر صرف آٹھ فیصد حصہ دیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس پر ہم لوگوں نے احتجاج کیا اور ٹرافی ہنٹنگ کے لیے قائم ضلعی کمیٹی میں پیش ہوئے۔ جس نے واضح طور پر حکم دیا کہ جو ٹرافی ہنٹنگ ہمارے علاقے میں ہوئی ہے، اس میں ہمیں پورا حصہ دیا جائے مگر ابھی تک اس پر عمل در آمد نہیں ہوا۔‘ڈاکٹر حیدر الملک کے مطابق اس کے بعد ایک اور طریقہ کار طے کیا گیا کہ 80 فیصد کمیونٹی کے حصے میں سے 40 فیصد حصہ اس علاقے کو دیا جائے گا جہاں پر شکار ہوگا جبکہ باقی 40 فیصد قریب کی کمیونیٹیز میں تقسیم کیا جائے گا مگر اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ڈاکٹر حیدر الملک کا دعویٰ تھا کہ ان حالات کے پیشِ نظر انھوں نے اپنے علاقے میں محکمہ جنگلی حیات کے ساتھ الحاق ختم کر دیا تھا اور اس کے لیے حکام کو باقاعدہ خط بھی لکھ دیا تھا۔ ’مگر اس کے باوجود وہ حالیہ ٹرافی ہنٹنگ کے دوران ہمارے علاقے میں آئے۔‘’وہ میری نجی زرعی زمینوں پر میری اجازت کے بغیر شکار کر رہے تھے۔ مجھے اطلاع نہیں تھی میں اپنے روز مرہ معمول کے مطابق جب اپنی زمینوں پر گیا تو محکمہ جنگلی حیات اور اس کے اہلکار شکاری کے ہمراہ مصروف تھے۔ میں صورتحال کو سمجھ ہی رہا تھا کہ شور شرابہ پیدا ہوگیا کہ میں نے ماخور بھگا دیا ہے، جس کے بعد میری خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔‘

ڈی ایف او چترال وائلڈ لائف محمد ادریس نے ڈاکٹر حیدر الملک کے الزامات کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محکمہ سرکاری علاقے میں ٹرافی ہنٹنگ کر رہا تھا جس میں ڈاکٹر حیدر الملک نے مسائل پیدا کیے ہیں، جس پر قانونی کارروائی کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ محکمے اور مقامی کمیونیٹیز کے معاملات بالکل صاف و شفاف ہیں اور اس میں کوئی اختلاف اور کوئی کرپشن نہیں ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے صرف ڈاکٹر حیدر الملک کے اپنے کوئی ذاتی مفادات ہیں جس کے لیے ’وہ مسائل پیدا کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے اکاؤنٹ اور کمیونیٹیز کے ساتھ موجود اکاؤنٹ کا ہر سال آڈٹ ہوتا ہے اور اس میں کوئی کرپشن موجود نہیں ہے۔

ٹرافی ہنٹنگ کی مخالفت میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ خطرے کا شکار جانوروں کو قتل کرکے کس طرح ان کی افزائش کی جاسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ماخور تو اس لیے خطرے کا شکار ہوا تھا کہ اس کو طبعی عمر پوری نہیں کرنے دی جارہی تھی، اور اب یہی کام حکومتی نگرانی میں کیا جارہا ہے۔ ’اس سے کچھ وقتی فائدے تو شاید حاصل ہوجائیں مگر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جانور اپنی طبعی عمر پوری نہ کرے اور اس کی افزائش بھی ہو؟‘انھوں نے وضاحت کی کہ جنگلی حیات کی بقا فوڈ چین کے قدرتی نظام کے تحت ہی ہوسکتی ہے۔ ’کبھی جانور خود کسی دوسری جنگلی حیات کا شکار بنتے ہیں اور کبھی کسی کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ یہ سب قدرتی عمل ہے۔ مگر جب انسان مداخلت کریں گے، ان کا شکار کریں گے، تو یہ قدرتی نظام تباہ ہوتا ہے۔ اس سے صرف ایک ماخور یاکسی ایک جنگلی حیات پر فرق نہیں پڑتا بلکہ جنگلی حیات کا نظام متاثر ہوتا ہے۔‘ ’حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ظالمانہ ٹرافی ہنٹنگ کو ختم کرے اور مارخور سمیت تمام جانوروں کو اپنی طبعی عمر پوری کرنے دیں۔‘

گلگت بلتستان کے محکمے جنگلی حیات کے ڈی ایف او جبران حیدر کا کہنا تھا کہ ٹرافی ہنٹنگ جانوروں کی افزائش نسل کا سب سے بہتر اور مانا ہوا طریقہ کار ہے۔ ’اس سے حاصل ہونے والی رقم مقامی کمیونٹی میں تقیسم ہوتی ہے۔ جس سے ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے اور وہ تحفظ کے لیے بڑھتے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’2008 میں مارخور صرف 2575 تھے، اب ان کی تعداد 4500 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ مارخور کی مجموعی تعداد پوری دنیا میں تقریباً 6000 ہوسکتی ہے، جس کا سب سے بڑا حصہ اب ہمارے پاس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرافی ہنٹنگ کی بدولت مقامی کمیونیٹیز نے آگے بڑھ کر خطرے کا شکار جانوروں کا تحفظ کیا جس کے بڑے اچھے نتائج سب کے سامنے ہیں۔’ٹرافی ہنٹنگ کے دوران کبھی بھی کسی جوان جانور کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔ ہمیشہ ایسے جانوروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو بوڑھے ہوں۔ اس لیے ماحولیاتی نظام تباہ ہونے کی بات بھی درست نہیں ہے۔‘