’برف کے نیچے بالکل خاموشی تھی، لگا جیسے قبر میں ہوں‘ شکیلہ

012120205

وادی نیلم میں برف تلے چھ گھنٹے دبے رہنے والی شکیلہ: ’برف کے نیچے بالکل خاموشی تھی، لگا جیسے قبر میں ہوں‘
’برف کے نیچے صرف موت تھی۔ ایک طرف میری گیارہ ماہ کی بیٹی اور دوسری طرف میرے کندھے پر مُردہ بھابی کا بازو۔‘یہ الفاظ ‎شکیلہ کے ہیں جنھوں نے ساڑھے چھ گھنٹے برف کے تودے اور گھر کے ملبے تلے گزارے ہیں۔وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم کے برفانی تودے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے سرگن کی رہائشی ہیں جہاں رواں ماہ شدید برفباری کے بعد برفانی تودے گرنے سے 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‎وہ کہتی ہیں کہ جب برف کا تودہ گرا تو صرف ایک زوردار آواز آئی تھی۔’وہ بہت اونچی آواز تھی جیسے بہت تیز ہوا کا جھونکا آیا ہو۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ صحن میں بیٹھی تھی، میرے ہاتھ میں اُس کی کھلونا ٹارچ تھی جس سے میں اسے بہلا رہی تھی۔’میری ساس ایک کمرے میں بھابی کے بچوں کے ساتھ تھیں۔ میری تینوں بھابھیاں کام کر رہی تھیں، بچے کھیل رہے تھے اور میرے سسر لکڑیاں سنبھال رہے تھے اور ایک سیکنڈ میں ہوا آئی۔ پھر برف نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔‘‎جسے شکیلہ ہوا سمجھیں وہ برف کا تودہ تھا جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی وادی نیلم کے کئی دیہات میں تباہی پھیلا گیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ تودہ گرنے کے بعد کچھ دیر تک انھیں گھر والوں کی چیخیں سنائی دیتی رہیں۔

’پہلے سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ پھر میں بس خدا کا نام لیتی رہی۔ چیخ رہی تھی کہ کوئی مدد کرنے والا ہے تو ہمیں نکالے۔ پہلے آدھا پونا گھنٹہ تو سب کی آوازیں آتی رہیں۔ سب چیخ رہے تھے۔ بچے رو رہے تھے۔ میری ساس اور سسر کی آواز آئی جو مسلسل کلمہ پڑھتے رہے۔ پھر سب آوازیں بند ہوگئیں۔‘‎شکیلہ خود اس وقت مظفرآباد کے سی ایم ایچ ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ ان کی ٹانگیں اور کمر اس حادثے میں کچلی گئی ہیں جبکہ ان کے خاندان کے کُل 11 افراد ملبے تلے دب کر ہلاک ہوئے۔‎وہ برف کے نیچے گزرے چھ گھنٹوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’مجھے لگا میں کسی قبر میں ہوں۔ برف کے نیچے بالکل خاموشی تھی اور برف کے اوپر گاؤں والوں کا شور شروع ہو گیا۔‘‎’میرے اوپر سے لوگ احتیاط سے قدم رکھ کر گزرتے۔ مجھے سب کی آواز آ رہی تھی مگر کسی کو میری آواز نہ آئی۔

میں چیخ رہی تھی کہ میں یہاں ہوں۔ مگر میری آواز گونجتی اور کسی کو پتا نہ چلتا کہ میں کہاں سے بول رہی ہوں۔‘‎گذشتہ ہفتے وادی نیلم میں گرنے والے برفانی تودوں میں دب کر جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔یہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب یہاں موسم سرما کی تعطیلات تھیں اور بچے اور خواتین گھروں کے اندر تھے۔ کئی افراد کی لاشیں تیسرے دن ملبے سے نکالی گئیں۔ شکیلہ کہتی ہیں کہ انھیں امید نہیں تھی کہ وہ برف کی اس تہہ سے زندہ نکل پائیں گی۔‎’آہستہ آہستہ برف کے نیچے بھی اندھیرا ہو رہا تھا۔ گاؤں میں بجلی نہیں تھی، کئی گھنٹے گزر گئے تھے۔ میں ہل نہیں سکتی تھی۔ میرے ٹانگیں دب چکی تھیں۔ میری بیٹی بےہوش تھی مگر میں اسے اس خوف سے چُھو نہیں سکی کہ کہیں کوئی پتھر یا لکڑی اس پر گر نہ جائے۔ اب کہیں کوئی آواز نہیں تھی۔ میں بھی چپ ہوگئی کہ بس اب نہیں بچ سکتی۔‘وہ کہتی ہیں کہ اس وقت انھیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات ہیں۔

’سردی محسوس ہوئی نہ کوئی درد ہوا۔ مجھے اپنے ماں باپ کا خیال آیا کہ نجانے وہ زندہ ہوں گے یا نہیں، میں سوچتی رہی کہ کیا پورا گاؤں ہی تباہ ہو گیا ہو گا، اور کیا میرے گھر میں کوئی بچ پائے گا یا نہیں۔ بس یہی سوچتی رہی۔‘ ‎لیکن پھر ایک کھلونا ہی ان کے اس برف سے زندہ باہر نکالے جانے کا سبب بنا۔
’مجھے اچانک یاد آیا کہ تودہ گرنے کے وقت جس کھلونا ٹارچ سے میں اپنی بیٹی کو بہلا رہی تھی، وہ میرے پاس ہی پڑی تھی۔ بس وہ ٹارچ نہ ہوتی تو شاید میں زندہ ہی نہ بچتی۔ میں نے اس کا بٹن دبایا اور برف کی جانب اس کی لائٹ آن کر دی۔‘رات کے اندھیرے میں ٹارچ کی روشنی نے برف میں سے اپنا راستہ بنایا اور امدادی ٹیموں نے انھیں ملبے سے نکالا۔ وہ کہتی ہیں کہ ملبے سے نکلتے ہی وہ بے ہوش ہو گئیں۔‎’جب ہوش آیا تو ہیلی کاپٹر آ چکے تھے اور مجھے اس میں لے جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا میری بیٹی کہاں ہے۔ سب نے کہا کہ وہ سو رہی ہے، مگر کسی نے نہیں بتایا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ دوسرے دن میرے شوہر کراچی سے پہنچے اور اپنے ماں باپ، بھابھیوں اور بھتیجے بھتیجوں کی تدفین کے بعد ہسپتال آئے اور کہنے لگے کہ ہماری مقدس اب ہمارے پاس نہیں رہی۔‘‎شکیلہ کے شوہر امجد کراچی میں ڈرائیور ہیں اور حادثے کا سن کر وہ اسلام آباد پہنچے۔


وہ کہتے ہیں کہ برف اس قدر زیادہ تھی کہ گاؤں تک پہنچنے کے لیے انھیں 22 گھنٹے پیدل سفر کرنا پڑا تھا۔وہ اپنی اہلیہ شکیلہ اور بیٹی مقدس کے ہمراہ کچھ عرصہ قبل گاؤں میں منتقل ہوئے تھے مگر اب شکیلہ کہتی ہیں کہ وہ گاؤں واپس نہیں جائیں گی۔’ایک سال پہلے گاؤں کے دوسرے حصے میں تودہ گرا تو سب گاؤں والوں نے کہا کہ اب اگلی سردیاں آنے سے پہلے یہاں سے چلے جائیں گے، مگر کوئی نہیں گیا۔‘‎وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے انھیں بتایا کہ وہ ابھی اپنی بیٹی کی تدفین کر کے آئے ہیں۔’اب میں ہمیشہ کے لیے وہ گاؤں چھوڑ دوں گی جہاں میرا پورا کنبہ ختم ہو گیا ہے۔