صفیہ نے سعادت کو منٹو بنایا

012120205.jpg6

سعادت حسن منٹو کی والدہ بمبئی میں انہیں غلیظ کھولی میں رہتے دیکھ کر خاصی آزردہ ہوئیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔بیٹے سے انہوں نے پوچھا:’سعادت تم زیادہ کیوں نہیں کماتے‘اس سوال پر سعادت مند بیٹے نے جواب دیا’بی بی جان، زیادہ کما کر کیا کروں گا، جو کچھ کما رہا ہوں میرے لیے کافی ہے۔‘یہ سن کر ماں نے بیٹے سے کہا۔’نہیں، بات اصل میں یہ ہے کہ تم زیادہ کما نہیں سکتے۔ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے تو الگ بات تھی۔‘منٹو نے والدہ کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔’بی بی جان، میں جو کچھ کماتا ہوں، میری ذات کے لیے کافی ہے۔ گھر میں بیوی ہوتی تو پھر آپ دیکھتیں، میں کیسے کماتا ہوں۔ کمانا کوئی مشکل کام نہیں۔

آدمی اعلیٰ تعلیم کے بغیر بھی ڈھیروں روپیہ حاصل کرسکتا ہے۔‘بیٹے کا موقف جان کر والدہ نے پوچھا شادی کرو گے؟ ’منٹو نے جواب دیا:’ہاں ……کیوں نہیں!‘بیٹے کے منہ سے ہاں سن کر ماں نے کہا، شادی ہوجائے گی۔فرزندِ ارجمند کو اتوار کے روز ایک جگہ پہنچنے کو کہا اور بال کٹوا کر آنے کی تاکید کی۔منٹو نے بال تو نہیں کٹوائے البتہ جوتے پالش سے چمکا لیے۔ دھلی دھلائی سفید پتلون زیب تن کی اور والدہ کی بتائی جگہ پر پہنچ گئے۔لڑکی کے چچا کو منٹو نے اپنی زبوں حالی کی کتھا سنا دی۔ یہ تک بتا دیا کہ وہ ان پھٹے حالوں میں بھی ہرشام بیئرپیتے ہیں۔ اس اعترافِ رندانہ پر بھی ناگواری ظاہر نہ ہونے پر منٹو کو حیرت ہوئی۔ منٹو کی والدہ نے انہیں بتایا کہ لڑکی کا خاندان مشرقی افریقہ سے آیا ہے اور یہ لوگ ان کے بھائیوں کے واقف کار ہیں۔ لڑکی کا رشتہ وہ کسی کشمیری گھرانے میں کرنا چاہتے ہیں۔ منٹو کی طرح ان کی والدہ نے بھی لڑکی والوں سے کوئی بات نہیں چھپائی۔ اس بنیاد پر منٹو کو امید تھی کہ وہ’ریجیکٹ‘ ہو جائیں گے۔ فیصلہ لیکن ان کی توقعات کے برعکس آیا۔ رشتہ منظور ہونے کی خبر سن کر منٹو کی کیا کیفیت ہوئی اس کا احوال انہوں نے کچھ یوں قلمبند کیا ہے۔ ……’جب میں نے یہ سنا تو چکرا گیا۔

میں توشادی کے اس قصے کو صرف ایک مذاق سمجھ رہا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے قطعاً یقین نہیں تھا کہ مجھے کوئی ہوش مند انسان اپنی لڑکی دے گا۔ میرے پاس تھا ہی کیا۔ انٹر پاس۔ وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں۔ ملازمت ایسی جگہ جہاں تنخواہ کے بجائے ایڈوانس ملتا تھا۔ اور پیشہ فلم اور اخبار نویسی۔ ایسے لوگوں کو شریف آدمی کب منہ لگاتے تھے۔‘ منٹو کے لیے اب کوئی راہِ فرار نہ تھی۔ چارو نا چارنکاح کے لیے راضی ہونا پڑا۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد انہوں نے رسومات پوری کرنے کے لیے تھوڑے پیسے اکٹھے کرلیے۔

فلم کمپنی کی طرف ان کے قریباً ڈیڑھ ہزار روپے نکلتے تھے۔ سیٹھ سے تقاضا کیا تو اس نے نقدی دینے سے انکار کیا، مایوسی کے عالم میں وہاں سے پلٹنے لگے تو سیٹھ نے کہا ’میں صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ تمہیں ضروری چیزیں لے دوں۔‘ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ منٹو نے یہ آفر قبول کرلی اور اس سکیم سے فائدہ اٹھایا۔ دلہن کے لیے دو ساڑھیاں اور زیورات خریدے۔ 1938 میں منٹو کا صفیہ سے نکاح ہو گیا۔ رخصتی اس لیے نہ ہو سکی کہ بیوی کو رکھنے کے لیے ڈھنگ کی رہائش نہیں تھی۔ منٹو لکھتے ہیں۔ ……’اسے کھلاتا کہاں سے، سامنے والے ایرانی کے ہوٹل سے اور وہ بھی ادھار۔ رکھتا کہاں؟ کھولی میں تو ایک سے زائد کرسی کے لیے بھی جگہ نہیں تھی۔

ظاہر ہے کہ بیویاں نہاتی بھی ہیں، مگر وہاں تو کوئی غسل خانہ ہی نہیں تھا۔ دو منزلہ بلڈنگ تھی جس میں 40 کھولیاں تھیں۔ ان سب کے ساکنوں کے لیے صرف دو غسل خانے تھے، جن کے دروازے معلوم نہیں کب کے غائب ہوچکے تھے۔ مجھے اس احساس سے بڑی الجھن ہوتی تھی کہ میرا نکاح ہوگیا ہے اور ایک لڑکی کے ساتھ آج نہیں تو کل مجھے شوہر کی حیثیت سے زندگی گزارنا ہو گی۔‘نکاح کے بعد احمد ندیم قاسمی کو خط میں لکھا:’میری شادی ؟ ……میری شادی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ میں صرف ’نکاحا‘ گیا ہوں۔ میری بیوی لاہور کے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا باپ مرچکا ہے، میرا بھی باپ زندہ نہیں، وہ چشمہ لگاتی ہے، میں بھی چشمہ لگاتا ہوں، وہ 11 مئی کو پیدا ہوئی ہے، میں بھی 11 مئی کو پیدا ہوا تھا، اس کی ماں چشمہ لگاتی ہے، میری والدہ بھی چشمہ لگاتی ہے، اس کے نام کا پہلا حرف ہے: ایس میرے نام کا پہلا حرف بھی ایس ہے۔ ہم میں اتنی چیزیں مشترک ہیں۔بقایا حالات کے متعلق میں خود کچھ نہیں جانتا۔ پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھی مگر جب سے اس پر میرا حق ہوا ہے اس نے پردہ کرنا شروع کردیا ہے (صرف مجھ سے)۔‘

منٹو اپنے دگرگوں حالات کی وجہ سے رخصتی میں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے لیکن جب نکاح کو سال ہونے کو آیا اور سسرالیوں کی طرف سے اصرار بڑھا تو والدہ نے تاریخ مقرر کردی۔منٹو نے اس دن کو روزِ محشر لکھا ہے۔ دلہن کی رخصتی سے 10 دن پہلے منٹو حرکت میں آئے۔ دفتر کے قریب 35 روپے ماہوار پر فلیٹ کرائے پر لیا۔خالی فلیٹ بھرا بھرا نظر آئے، اس کے لیے کچھ سامان خریدا۔نانو بھائی ڈیسائی سے کہانی کے معاوضے اور بقایا جات کا مطالبہ کیا۔ اس نے ٹرخانا چاہا تو منٹو نے دھمکی دی اور بابو راؤ پٹیل کو بیچ میں ڈالا، تب کہیں جا کر رخصتی سے چار دن پہلے اس سے پانچ سو روپے نکلوانے میں کامیابی ہوئی۔منٹو کی زندگی میں بیوی کے آنے سے نئے دور کا آغاز ہوا۔ شادی کو انہوں نے زندگی کے تین حادثوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ باقی دو حادثوں میں ایک ان کی پیدائش اور دوسرا افسانہ نگار بننا ہے۔صفیہ منٹو کا خاندان ایک مدت سے مشرقی افریقہ میں آباد تھا۔ ان کے والد خواجہ قمر الدین زنجیبار پولیس میں پبلک پراسیکیوٹر تھے۔ وہاں ایک دنگے میں کسی حبشی نے خنجر مار کر انہیں قتل کردیا۔ صفیہ کے تایا وہاں رکنِ پارلیمنٹ تھے۔چچا ملک حسن پولیس میں تھے۔ افریقہ ہی میں منٹو کے دو سوتیلے بھائی قانون کے پیشے سے منسلک تھے اور صفیہ کے خاندان سے ان کی واقفیت تھی۔

رشتے کی بات بمبئی میں مقیم منٹو کی بہن نے چلائی جسے ان کی والدہ نے تکمیل تک پہنچایا۔شادی کے بعد منٹو کو دو بڑے صدموں سے گزرنا پڑا۔ شادی کے ایک سال بعد والدہ دنیا چھوڑ گئیں۔ شدت ِغم سے بیمار پڑ گئے۔والدہ کی وفات کے بعد منٹو کو بیٹے عارف کی موت کا غم سہنا پڑا۔ جگر گوشے کی موت نے صفیہ کو ادھ موا کردیا۔ منٹو بھی غم سے نڈھال ہو گئے۔شادی کے بعد بھی منٹو کی زندگی میں معاشی آسودگی نہیں آئی۔ مصور رسالے سے نوکری ختم ہوئی تو مشکلات اور بھی بڑھ گئیں۔ حالات منٹو کو دہلی لے گئے اور وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ سال ڈیڑھ سال بعد منٹو بمبئی واپس آ گئے۔ اب فلمی دنیا میں بطور رائٹر ان کے قدم جمنے لگے۔ مصور کی ایڈیٹری بھی مل گئی۔ معاشی حالت بہتر ہو گئی۔ تخلیقی سفر بھی کامیابی سے جاری تھا۔ بیٹی پیدا ہوئی تو میاں بیوی کی زندگی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

صفیہ منٹو بہت نفیس خاتون تھیں۔ میاں کے ادیب دوستوں سے انہیں چڑ نہ تھی اور وہ ان کا احترام کرتی تھیں۔منٹو کے احمد ندیم قاسمی کے نام خطوط سے اور عصمت چغتائی کے منٹو پر خاکے سے ان کی شخصیت کے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ صفیہ کو مطالعہ کا بھی شوق تھا اور وہ ادبی رسالوں میں احمد ندیم قاسمی کے افسانے پڑھ کر فیڈ بیک بھی دیتی تھیں۔عصمت چغتائی سے صفیہ کی ملاقات ہوئی تو ان کی فوراً ہی دوستی ہو گئی۔منٹو کی بیٹی نگہت پیدا ہوئی تو گھر میں رونق آ گئی۔ عصمت ملنے گئی تو دیکھا کہ وہ الگنی پر بچی کے پوتڑے نچوڑ کر پھیلا رہے تھے۔تقسیم سے پہلے کے چند برسوں میں بمبئی میں منٹو کو معاشی آسودگی حاصل ہو گئی تھی جس کی وجہ فلمی دنیا میں بطور رائٹر اُن کی مانگ میں اضافہ تھا۔تقسیم نے منٹو کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔ اس کی وجہ سے سیاسی فضا مسموم ہوئی اور مختلف قوموں کے افراد کے آپسی تعلقات میں دراڑ آ گئی۔ دلوں کے بیچ جو گرہ پڑی، شوبز انڈسٹری بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

فسادات نے صورت حال کو اور بھی خوف ناک بنا دیا۔ ان حالات نے منٹو جیسے حساس انسان کو ہلا کر رکھ دیا۔ حالات کے جبر نے منٹو کو پاکستان نقل مکانی پر مجبور کیا۔ انہں نے زندگی کے آخری سات سال لاہور میں بسر کیے۔یہ عرصہ تخلیقی اعتبار سے نہایت زرخیز لیکن ذاتی اعتبار سے بہت تلخ رہا۔ بمبئی فلم انڈسٹری کے کامیاب رائٹر کو پاکستان میں کامیابی نہ ملی۔ پبلشروں نے استحصال کیا۔ افسانوں پر مقدمے چلے۔ رجعت پسندوں اور ترقی پسندوں سے لڑائی رہی۔ایک بڑی مصیبت ان کا الکوحلک ہونا تھا جس کے لیے انہیں تخلیقی اور ذاتی حوالوں سے سمجھوتے بھی کرنا پڑے۔ اس علت کے باعث صحت دن بدن گرتی گئی۔یہ سب صفیہ منٹو کے لیے بہت پریشان کن تھا جنھوں نے شوہر کو بہتیرا سمجھایا۔ منت ترلا کیا۔ ان کا پہرہ دیا کہ وہ شراب نہ پیئں۔ مینٹل ہسپتال داخل کرایا کہ شراب سے چھٹکارا پا سکیں۔

ادبی جلسوں میں ان کے ساتھ جاتیں کہ کہیں راستے میں بھٹک نہ جائیں لیکن سب بے سود گیا۔ منٹو نے اپنی روش نہ بدلی جس کے نتیجے میں گھر میں عسرت نے ڈیرے ڈالے۔ ایک خط میں لکھا:’جب سے یہاں آیا ہوں نہ صفیہ نے مجھ سے کوئی فرمائش کی ہے اور نہ ہی نگہت، نزہت اور نصرت میں سے کسی نے……بعض منحوس سال ایسے بھی آئے تھے کہ بچی کی سالگرہ تھی اور جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔‘صفیہ منٹو نے احمد ندیم قاسمی سے التجا کی: ’ندیم بھائی! خدا کے لیے انہیں خود کشی کرنے سے روک لیجیے……وہ یونہی پیتے رہے تو بہت دن تک جی نہیں سکیں گے۔‘احمد ندیم قاسمی نے منٹو کو شراب پینے سے باز رکھنا چاہا تو منٹو نے جواب دیا:’دیکھو احمد ندیم قاسمی، میں نے تمہیں دوست بنایا ہے۔ اپنے ضمیر کی مسجد کا امام مقرر نہیں کیا۔ مجھے وعظ نہ دیا کرو، سمجھے؟‘
سعادت حسن منٹو 18 جنوری 1955 کو اس جہاں سے گزر گئے۔ 22 برس بعد 1977 میں صفیہ منٹو نے آخری سانس لی۔منٹو کے بعد صفیہ منٹو نے بڑی ہمت اور تدبر سے بیٹیوں کی پرورش کی۔ انہیں پڑھایا لکھایا۔ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا اور ان کی شادی کی۔ ان سب کاموں میں ان کے خاندان نے بہت ساتھ دیا۔ممتاز ادیب انور سجاد نے صفیہ منٹو کے بارے میں اپنے تاثرات اس مؤثر انداز میں بیان کیے کہ مرحومہ کی شخصیت سے تھوڑے لفظوں میں بھرپور تعارف ہو جاتا ہے۔ ’صفیہ آپاصفیہ آپا بہت ہمت اور جرات والی تھیں۔

سعادت صاحب کے ساتھ گزارا کرنا بلکہ ان کی زندگی کے ہر لمحے کو تین بچوں سمیت جینا ٹائٹ روپ واکنگ ہی کے مترادف تھا۔سعادت صاحب کے بعدوہ خاموشی سے اپنی بچیوں کو پالتی رہیں۔اُن کی شادیاں کیں۔سعادت صاحب(نہیں منٹو کہ اُردو ادب پر اسی اسم کی چھاپ ہے)کی کہانیوں کے مجموعوں کی رائلٹیوں کا صفیہ آپا کی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ رائلٹی کے نام سے آگاہ تو تھیں پر اس سے شناسائی شاذو نادر ہی ہوئی۔اس سلسلے میں حلقہ ارباب ذوق میں منٹو کی ہر برسی پر زور و شور سے قرار داد یں پاس ہوتی رہیں؛قرار دادوں پر عمل کرنے کے بھی پیمان ہوتے رہے؛ ان پیمانوں پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی؛کسی ادب ادیب پرست کے کان پر جُوں تک نہ رینگی حتیٰ کہ حنیف رامے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو وہ بھی اس سلسلے میں پبلشر ہی رہے اب کسی سے کوئی گلہ نہیں ہو گا۔ حساب صاف ہو گیا۔ صفیہ آپا سعادت صاحب کے پاس چلی گئیں۔بچیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔منٹو کو ہر ایک نے کیش کیا،کرنے کی کوشش کی۔میں نے بھی کہ میں نے ”پھند نے“ سے کہانی لکھا سیکھااور یُوں انہیں کیش کیا۔صفیہ آپا ہمیشہ خاموش رہیں۔وہ اسی خاموشی سےکار میں ہسپتال جاتے ہوئے، جہاں اُن کے ایک داماد کاآپریشن ہو رہا تھا،راستے ہی میںپچھلی سیٹ پرچُپ چاپ، خاموشی سے سو گئیں۔وہ میری آپا تھیں۔وہ سب کی صفیہ آپا ہیں۔‘