ہنڈیا، صراحی، مٹکا، ڈولا، گلک اور مٹی کا کٹورا یاد ہے؟

حضرت انسان نے روئے زمین پر جب گزر بسر شروع کی تو اسے رہنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیا کو سنبھالنے کے لیے برتنوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔نجانے کب اور کیسے اس نے اپنی ضروریات کا حل نکالا اور درختوں‌ کی چھال، پتوں، پتھروں کو برتن کے طور پر یا کسی کھانے پینے کی چیز کو سنبھالنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہو گا، لیکن جب وہ صنعت گری کی طرف مائل ہوا اور ضرورتوں‌ نے اسے ایجاد کا راستہ سجھایا تو ہر طرح‌ کے برتن بنائے اور رفتہ رفتہ اپنی سہولت اور آسانی کے مطابق انھیں‌ مختلف سانچوں‌ میں‌ ڈھال لیا۔

جب انسان نے اپنے لیے خوراک کا انتظام کرنے، اسے کچھ روز محفوظ رکھنے اور کھانے پینے کا طور طریقہ جان لیا تو باقاعدہ برتن سازی کی طرف متوجہ ہوا۔ تاریخ‌ نویسوں اور محققین کا اندازہ ہے کہ مٹی کے برتن بنانے کا فن کم ازکم آٹھ سے دس ہزار سال پرانا ہے۔

ابتدائی دور میں ہی انسان نے مٹی کے برتن بنانا اور انہیں آگ میں پکا کر مضبوط کرنا سیکھ لیا تھا۔ بعض محققین کے مطابق چین میں اس فن کو عروج حاصل ہوا اور کوزہ گری کو ایک ہنر تصور کیا جانے لگا۔ محققین کے نزدیک مسلمانوں‌ نے رنگ دار مٹی سے برتن بنانے کی ابتدا کی اور کاری گروں نے مراکش سے لے کر اندلس تک اور پھر برصغیر میں بھی اس فن کو دوام دیا۔

آج ظروف سازی کا فن گویا دَم توڑتا نظر آرہا ہے۔ لوگ مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ترک کرچکے ہیں، لیکن پہلے گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتن ہی استعمال ہوتے تھے۔

ان میں پانی محفوظ رکھنے کے لیے گھڑے، پکوان کی ہنڈیا، کھانا پروسنے کے لیے پیالے اور اچار ڈالنے کے مرتبان کے علاوہ کئی اور برتن شامل تھے۔ پہلے مٹی کے پیالے سے پانی پیا جاتا تھا، لیکن آج پلاسٹک اور شیشے کے گلاس موجود ہیں۔ مٹی کے برتن صرف ضرورت نہیں‌ تھے بلکہ یہ ہماری رنگا رنگ ثقافت کا حصہ بھی رہے جو اب دم توڑتی جارہی ہے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو کبھی ظروف سازی کی صنعت دیہی علاقوں اور شہری مضافات کے لاکھوں‌ باسیوں کا روزگار رہی ہے، لیکن اب مٹی کے برتن بنانے کا سلسلہ محدود ہو گیا ہے۔