آزادکشمیر کی وادی نیلم: متاثرہ علاقوں کی صورتحال

012220204

‘جس گھر سے گیارہ جنازے اٹھے ہوں، اُن کا درد دیکھا تو جا سکتا ہے مگر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں ان تک پہنچنے کے لیے کئی بار پھسلتا اور کئی قدم واپس چلا جاتا، ہوا چلتی تو برف گرتی، مگر میں آگے بڑھتا گیا۔ لوگ اس قیامت سے دور بھاگ رہے تھے، وہ پہاڑ سے نیچے آ رہے تھے، میں اوپر جا رہا تھا’۔یہ صحافی اور سماجی کارکن ساجد میر ہیں۔ ان کا تعلق آزادکشمیر کی وادی نیلم سے ہے۔ وہ اُس وقت سترہ گھنٹے مسلسل سفر کر کے وادی کے گاؤں سرگن پہنچے جب گذشتہ ہفتے برفانی تودے نے کئی جانیں لے لیں تھیں۔ بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ دشوار گزار راستوں اور انتہائی خطرناک سفر کے دوران اُنہیں کن مشکلات کا سامنا رہا اور اس سفر میں انھوں نے کیا دیکھا۔میں نے جب اٹھمقام سے سفر شروع کیا تو اُس وقت تک اداروں کے پاس بھی مکمل معلومات نہیں تھیں۔

میں نے لوات سے آگے پیدل سفر کیا کیونکہ راستے بند ہو چکے تھے۔ لوات سے شاردہ تک کئی فٹ برف تھی۔ شاردہ سے آگے بہت خطرہ تھا۔میں اکیلا تھا، جب میں نے شاردہ سے آگے سفر شروع کیا۔ آگے گلیشیئرز تھے، راستہ خطرناک تھا۔ لوگ نیچے آ رہے تھے، مجھے کوئی راستے میں ملتا تو مجھ سے پوچھتا کہ ‘کیا تم پاگل ہو؟ آگے مت جاؤ بہت خطرہ ہے’۔ وہ مجھے بتاتے کہ جان بھی جا سکتی ہے مگر میں نے سفر جاری رکھا۔ہر طرف برف ہی برف تھی۔ یخ ہوائیں چلتیں اور جسم میں جیسے سوئیاں چبھتی تھیں۔ یہ جو کپڑے میں نے پہنے ہیں یہ اُسی دن سے اب تک پہنے ہوئے ہیں۔ جو لوگ نیچے آ رہے تھے ان کا بُرا حال تھا، انہی سے مجھے معلومات بھی ملتی رہیں۔’میں برف میں دھنس چکا تھا’بہت خوف تھا، جب میں گھر سے چلا اس وقت تو خوف بہت زیادہ تھا۔ گھر سے بھی اس خطرناک راستے پر جانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ میں نے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا کہ میں جا رہا ہوں۔ لیکن میری صحافت کا تو مقصد ہی لوگوں کی مشکلات کو بتانا تھا۔

راستے میں ڈر تو بہت لگا۔ کئی جگہوں پر جب کبھی اوپر سے برف گرتی تو مجھے دس، بیس قدم پیچھے ہٹنا پڑتا۔ لیکن میں پھر بھی ہمت کر کے آگے بڑھتا رہا۔ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میرا آدھا جسم برف میں دھنس چکا تھا۔ وہاں سے ایک راہگیر نے مجھے دیکھا اور تیزی سے میری طرف آیا۔ اس نے مجھے باہر نکالا اور کہا کہ ‘ارے بھائی کہاں مرنے کے لیے جا رہے ہیں’۔بار بار گرنے کے باعث ٹانگوں پر موچ بھی آچکی تھی، مگر اس وقت میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اپنی چوٹ کے بارے میں سوچوں۔کچھ علاقوں میں اتنی زیادہ برف گری کے پڑوسی کے گھر جانا بھی ناممکن ہوگیا۔’قریبی گاؤں میں یہ خبر ہی نہیں تھی کہ کہیں تودہ گرا ہے‘سُرگن سے پانچ کلومیٹر پہلے ایک گاؤں لسیاں آتا ہے۔ میں نے وہاں پہنچ کر سرگن گاؤں میں ہلاک ہونے والی ایک بچی سے متعلق پوچھا تو ان لوگوں کو علم نہیں تھا۔ انہیں میرے ذریعے پتا چلا کہ سرگن گاؤں میں برفانی تودہ گرنے سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس لاعلمی کی وجہ دس، دس فٹ تک پڑنے والی برف تھی جس نے پڑوسی کے گھر جانا بھی ناممکن بنا دیا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ رابطوں کا ہر ذریعہ جیسا کہ موبائل سروس بند ہو چکا تھا۔

’بائیس گھنٹے برف میں پھنسا بچہ بالکل گُم صُم تھا‘میں نے وہاں پہنچ کر جو پہلی تصویر کھینچی وہ ایک بچے کی تھی۔ وہ آٹھ سال کا بچہ تھا اور بالکل گم صم بیٹھا تھا۔ جب میں تصویر کھینچ رہا تھا تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہ بچہ بائیس گھنٹے برف میں پھنسا رہا ہے۔ اس بچے کے ماں باپ بھی اس حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔یہ آٹھ برس کا بچہ بائیس گھنٹے برف میں پھنسا رہامیں تصویریں چھوڑ کر اس بچے کے پاس بیٹھ گیا۔ بچے نے مجھے بتایا کہ کیسے وہ لوگوں کی آوازیں سن رہا تھا مگر اُس کی آواز کوئی نہیں سن پایا۔ اور یہ کہہ کر وہ روتا رہا اور اپنے امی ابو کو بلاتا رہا۔ یہ میرے لیے بہت جذباتی وقت تھا اور یہ منظر ایسا تھے کہ میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا۔لیکن وہاں لوگ بہت بڑے دل کے ہیں۔ بہت تعاون کرنے والے ہیں۔ جب میں پہنچا تو انھوں نے مجھے پانی پلایا، میرا شکریہ ادا کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ لوگ میری خاطر مدارت نہ کریں، آپ تو خود مشکل میں ہیں۔ میں تو آپ کی تکلیف دنیا تک پہنچانے آیا ہوں جو میرا فرض ہے’۔لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انہیں ان علاقوں سے نکالا جائے جہاں مزید تودے گرنے کا خطرہ ہے

مجھے سرگن گاؤں میں ایک خاتون ملیں، وہ منہ دوسری جانب پھیرے بیٹھی تھیں۔ جب میں نے ان سے کہا کہ خالہ جی آپ اس طرف مڑیں میں نے انٹرویو کرنا ہے تو وہ غصے سے بولیں کہ آپ سے میں کیا بات کروں گی؟ یہاں کیا کرنے آئے ہو اب تم لوگ؟ چلے جاؤ، وہ مجھے امدادی کارکن سمجھیں، اور کہنے لگیں کہ تم لوگ آتے ہو، اُوپر سے خیمے پھینکتے ہو، آٹا پھینکتے ہو اور چلے جاتے ہو، مجھے بتاؤ ہم ان خیموں کو کہاں لگائیں؟ ہم ان خیموں کو گلیشیئر پر لگائیں؟ کیا ان گلیشیرز کے نیچے بیٹھ کر ہم کھانے کھائیں جو ہمیں دے کر گئے ہیں؟وہاں لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انھیں ان علاقوں سے نکالا جائے جہاں مزید تودے گرنے کا خطرہ ہے۔ جب میں پہنچا تب تک لوگوں کی تدفین ہو چکی تھی۔ سرگن میں اجتماعی قبر بنائی گئی ہے۔ اب وہاں حکومت ہے نہ ادارے ہیں اور لوگ بے سروسامان بیٹھے ہیں۔سخت موسم اور دشوار گزار راستوں کے باوجود خواتین اپنے بچوں کو اٹھائے شاردہ کی جانب جا رہی تھیں۔’ متاثرہ علاقوں میں ادویات ہیں نہ ڈاکٹر’میں نے ایسی خواتین کو دیکھا جو اس قدر سخت موسم اور دشوار گزار راستوں کے باوجود اپنے بچوں کو اٹھائے شاردہ کی جانب جا رہی تھیں۔گاؤں میں نہ ڈاکٹر ہیں نہ دوائیں۔ اس لیے بچوں کو یہاں سے نکال رہے ہیں۔ ان علاقوں میں درجہ حرارت منفی سات اور آٹھ ہے اور اگر دوبارہ برف پڑتی ہے جیسا کہ محکمہ موسمیات نے پیشن گوئی کی ہے تو یہاں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی اور اندازہ لگائیں کہ ان کی زندگی کس قدر مشکل ہو جائے گی۔

یہاں لوگوں کے پاس کوئی انتظام نہیں ہے۔ وہ منتظر ہیں کہ انہیں یہاں سے نکالا جائے۔لوگ گھروں کے ملبے پر بیٹھے تھے، کوئی ملبے میں سے اپنا بچا ہوا سامان نکال رہا تھا، کسی کے ہاتھ کمبل آتا اور کسی کو تکیہ ملتا۔ وہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کی بیوی اور چار بیٹیاں اس حادثے کی نذر ہو گئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ ملبے سے کوئی چیز نکال رہا تھا۔ میں قریب گیا تو وہ ایک فوٹو فریم تھا۔ وہ شخص کھڑا ہو کر تصویر دیکھتا رہا۔ یہ اس کے بیوی بچوں کی تصویر تھی’۔وہاں لوگ کہتے ہیں کہ ابھی تک حکومت نے ان علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل نہیں کیا ہے اور مقامی افراد منتظر ہیں کہ انہیں یہاں سے نکالا جائے گا۔اس سفر میں میں نے بہت کچھ سیکھا۔ مجھے یہ بہت قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا کہ کڑے وقت میں لوگوں پر کیا گزرتی ہے۔ اور پھر اپنا نظام دیکھنے کا موقع ملا کہ ہم کس قدر مردہ نظام میں رہ رہے ہیں۔