سائنسدانوں کی نئی تحقیق: کیا ذہنی دباؤ کی وجہ سے بالوں کا رنگ سفید ہو جاتا ہے؟ 

012320201

امریکہ اور برازیل کے محققین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ذہنی دباؤ ممکنہ طور پر بالوں کو سفید کرنے کا باعث بنتا ہے۔چوہوں پر کیے گئے تجربات سے ظاہر ہوا کہ اُن کے جسم کے وہ خلیے جو جلد اور بالوں کے رنگ کا تعین کرتے ہیں، وہ ان تجربوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ کی تاب نہ لا سکے اور تکلیف کے باعث انھیں نقصان ہوا۔اس نتیجے کے کچھ عرصے بعد اتفاقی طور پر محققین نے دیکھا کہ کالے بالوں والے چوہوں کے بالوں کا رنگ سفید ہو گیا۔

محققین نے کہا کہ اس تجربے کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مزید تحقیق کی جانی چاہیے تاکہ ایسی دوا ایجاد کی جا سکے جو بالوں کو سفید ہونے سے روک سکے۔عمومی طور پر مردوں اور عورتوں کے بالوں کا رنگ تیس کی دہائی میں تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے جو کہ ایک قدرتی عمل ہے لیکن عمر بڑھنے کے علاوہ ذہنی دباؤ بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔اس تحقیق کے پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس دریافت کے باوجود وہ اس بات کی یقنی طور پر وضاحت نہیں دے سکتے کہ ذہنی دباؤ اور بالوں کا سفید ہونے میں کیا تعلق ہے۔برازیل کی یونی ورسٹی آف ساؤ پاؤلو اور امریکہ جی ہارورڈ یونی ورسٹی کے محققین کی جانب سے کی گئی

تحقیق سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی جس میں محققین نے کہا کہ ممکن ہے کہ یہ تعلق میلانوسائٹ خلیوں کی وجہ سے ہو، جو میلانن پیدا کرتے ہیں اور جسم میں بالوں اور جلد کی رنگت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ہارورڈ یونی ورسٹی کی محقق اور اس تحقیق پر کام کرنے والی پروفیسر یاسیہ سو نے کہا کہ ‘ہم اب یہ یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ذہنی دباؤ بالوں اور جسم کا رنگ تبدیل کرنے کا باعث ہے۔’چوہوں پر کیے گئے تجربات میں دیکھا گیا کہ کالے بالوں والے چوہوں کے بالوں کا رنگ سفید ہو گیاسائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں دیکھا کہ چوہوں میں دوران تجربہ جسم میں ایڈرینالین نامی رطوبت نکلتی ہے جس کی وجہ سے حرکت قلب میں تیزی آتی ہے اور فشار خون میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ اس عمل کے ہونے سے میلانن خلیے کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر یاسیہ سو نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ ‘ذہنی دباؤ صرف جسم کے لیے مضر ہوتا ہے لیکن ہم نے اس تجربے میں دیکھا کہ اس کے منفی اثرات ہماری سوچ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان چوہوں میں صرف چند دن کے دوران ہی رنگ کو پیدا کرنے والے تمام خلیے ضائع ہو گئے تھے اور انھیں آپ دوبارہ پیدا نہیں کر سکتے۔’ پروفیسر یاسیہ سو کہتی ہیں کہ ہماری اس دریافت سے صرف پہلی منزل طے ہوئی اور ابھی بہت طویل سفر باقی ہے جس کے بعد جا کر ہم انسانوں کے لیے بالوں کو سفید ہونے سے روکنے کے لیے کوئی علاج ڈھونڈ سکیں گے۔