تعلیم کا عالمی دن: ’بیٹی پڑھاؤ، کم سے کم بارہ جماعتیں‘

012520201

تین دسمبر 2018 کو اقوام متحدہ نے ہر برس 24 جنوری کو تعلیم کے عالمی دن کے طور پر منائے جانے کا اعلان کیا تھا۔’لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، پڑھی لکھی (لڑکیاں) ہر ذمہ داری بخوبی نبھا سکتی ہیں۔ وہ بہتر انداز میں اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنا گھر سنبھال سکتی ہیں اور آنے والی نسلوں کو بھی اچھا مستقبل دے سکتی ہیں۔ بیٹی پڑھاؤ، ملک آگے بڑھاؤ۔‘’آپ کی لڑکیاں آپ کے لڑکوں سے کمتر نہیں ہیں۔ قانونی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی۔ ان کی صلاحیتوں اور ٹیلینٹ کو حقیر مت جانیے۔‘

علی حسن نے لڑکیوں کی تعلیم کو ایسا مسئلہ قرار دیا جو اب تک حکومتی توجہ کا طالب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو فی الفور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت حکومت پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔‘
اسی طرح ہیش ٹیگ ’کم سے کم بارہ جماعتیں‘ بھی ٹرینڈ کرتا رہا اور اس پر بات کرنے والے صارفین کا کہنا ہے کہ نہ صرف بیٹی پڑھاؤ بلکہ کم سے کم بارہ جماعتوں تک تو ضرور۔

’لڑکیوں کی تعلیم پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ تعلیم حقوقِ نسواں سے متعلق آگاہی پھیلانے میں مددگار ہوگی کیونکہ پڑھی لکھی لڑکیاں اپنے بنیادی اور آئینی حقوق سے آگاہ ہوں گی۔‘تاہم ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں تمام ٹوئٹر صارفین اس حوالے سے یہی مخصوص رائے رکھتے ہیں۔ چند دوسرے بھی ہیں جو الگ ہی نظریے کا پرچار کرتے دکھائی دیے۔’نوجوانوں میرا یقین کیجیے یہ سب ایک فریب ہے۔ اگر آپ حصولِ تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے تو اپنا وقت، توانائی اور خواب کاغذ کے چند ٹکڑوں (کتابوں) میں ضائع مت کیجیے۔ پیسے کمانے کی تدابیر کیجیے۔ (پیسہ) دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔‘

سوشل میڈیا ٹرینڈز پر رائے، تبصرے اور تنقید کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن یہ ٹرینڈ شروع کہاں سے ہوا اور کیوں؟ اس سوال کا جواب ہمیں ’پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر اریبہ شاہد سے جب یہ پوچھا کہ ان کے جانب سے آج یہ ٹرینڈز شروع کرنے کے کوئی خاص وجہ تھی تو ان کا کہنا تھا کہ آج جب پوری دنیا تعلیم کا عالمی دن منا رہی ہے تو پاکستان میں اس معاملے پر ہمیں ہر طرف خاموشی نظر آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پر کسی کو تو بات کرنے کے ضرورت تھ
اریبہ کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ یہ مسئلہ پاکستان کا ہے کیونکہ دنیا میں سکول سے باہر بچوں کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر آتا ہے۔’بچیوں کی تعلیم پر زور اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سوا دو کروڑ بچے اور بچیاں سکولوں سے باہر ہیں اور ان میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے جو تقریبا 53 فیصد بنتی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ کم سے کم بارہ جماعتیں پڑھانے کے ہیش ٹیگ کو شروع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ گزشتہ دس برسوں میں ملک میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ بچیاں جو بارہ جماعتوں تک پڑھی ہوتی ہیں ان پر گھریلو تشدد ہونے کے امکانات بہت حد تک کم ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے حقوق سمجھتی ہیں، قانون اور اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے طریقے بہتر جانتی ہیں۔

’اگر ہم اپنی بچیوں کو بارہ جماعتں پڑھا سکیں تو مجھے یقین ہے کہ روزانہ کے بنیاد پر جو گھریلو تشدد کے واقعات کی خبریں سامنے آتی ہیں ہم ان پر قابو پانے مییں بہت حد تک کامیاب ہو جائیں گے۔‘انھوں نے کہا کہ یہ ایک عوامی آگاہی کی مہم ہے تاہم اس مسئلے پر حکومتی سطح پر باقاعدہ پالیسی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔