پسنی کے ساحل پر کچرے کے ڈھیروں سے سمندری حیات کو خطرہ
پسنی کی بلدیہ شہر کا کچرا ساحل پر لا کر پھینک رہی ہے جس سے سمندری حیات کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔مقامی لوگوں نے گندگی کی وجہ سے ساحل پر آنا چھوڑ دیا ہے (ظریف بلوچ)مہذب معاشروں میں ساحلی علاقوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دے کر نہ صرف سمندری مخلوق کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے سیاحت کو بھی فروغ ملتا ہے۔ لیکن مکران کے ساحلی علاقوں میں اس کے برعکس ہی ہو رہا ہے اور زیادہ تر ساحلی علاقوں میں ساحل کی صفائی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے گندگی کے ڈھیر جابجا نظر آتے ہیں۔ مکران کے ساحلی شہر پسنی میں ساحل کو کوڑا دان بنانے کا بیڑہ کسی اور نہیں، بلکہ شہر کے صفائی کا بیڑہ اٹھانے والے ادارے بلدیہ پسنی نے خود اٹھایا ہے۔بلدیہ پسنی شہر کے کوڑا کرکٹ اور کچرے کو اکٹھا کر کے تلف کرنے کی بجائے ساحل کے کنارے جمع کر رہی ہے۔ اس سے نہ صرف ساحل کا حسن تباہ ہو کر رہے گیا ہے بلکہ آبی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے، کیونکہ ساحل کے قریب نہ صرف مچھلیاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں بلکہ یہاں تمر کے بڑے جنگلات بھی موجود ہیں۔
گندگی کی وجہ سے مچھلیوں کے جسم میں بدبو پھیلتی ہے اور وہ ساحل کے قریب مردہ حالات میں پائی گئی ہیں۔ چونکہ یہ مچھلیاں علاقے کے لوگوں کی مرغوب غذا ہیں اس لیے آلودگی کے براہ راست اثرات انسانی صحت کو پہنچ سکتے ہیں۔تیز ہواؤں کی وجہ سے یہ کچرا اب سمندر میں شامل ہو کر نہ صرف سمندری مخلوقات کی زندگی کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے، بلکہ بدبو اور کچروں کی ڈھیر کی وجہ سے پسنی کا خوبصورت ساحل اب ایک کوڑے کا ڈھیر بن چکا ہے۔پہلے مقامی لوگ کام کاج سے فارغ ہو کر تفریح کے لیے اسی ساحل کا رخ کرتے تھے مگر کچرے کی وجہ سے اب وہ یہاں آنے سے کتراتے ہیں، اور ان کی جگہ یہاں گائیں اور بیل کچرے میں خوراک تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔علاقے کے رہائشی اور سماجی کارکن فیصل شاہ نے بتایا کہ یہ ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں لوگ چہل قدمی اور سیر و تفریح کے لیے آتے تھے لیکن اب گندگی کی وجہ سے علاقے کے لوگوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا کیونکہ گندگی اور بدبو کی وجہ سے یہاں سانس بند ہو جاتی ہے۔انہوں نے کہا: ’دیگر علاقوں میں ساحلوں کو خوبصورت بنا کر سیاحت کو فروغ دیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں خوبصورت ساحل کے قریب کچرا جمع کر کے اسے گندا کیا جا رہا ہے۔‘
پلاسٹک سے خطرہ
کراچی یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنسز کے معاون پروفیسر شعیب کیانی بتاتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں آلودگی کے حوالے سے جتنی تحقیق ہو رہی ہے اس میں زیادہ توجہ پلاسٹک اور اس کے اثرات پر دی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا: ’پلاسٹک کے تھیلے آبی پرندوں، کچھووں، ڈولفن اور شارک مچھلیوں کے لیے بھی خطرے کا باعث ہیں جو ان پلاسٹک کے تھیلوں کو جیلی فش سمجھ کر کھا لیتے ہیں لیکن یہ ان کے معدے میں پھنس جانے کے باعث ان کی موت کا سبب بنتے ہیں۔ یہ تمام سمندر کے نظام کے لیے خطرناک ہے۔‘پسنی سے تعلق رکھنے والے ماہر حیاتیات واجد واحد پلاسٹک سے لاحق ایک اور خطرے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’پلاسٹک سمندری مخلوق کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ دھوپ اور سمندر کے نمکین پانی کے عمل سے یہ ٹوٹ کر باریک ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی ذرات سمندری حیات کے تباہی کا باعث بنتے ہیں۔‘کچرے کے ڈھیروں کی وجہ سے سمندری حیات کو شدید خطرہ لاحق ہے (ظریف بلوچ)وہ کہتے ہیں کہ پلاسٹک کے ذرات چار سو سال کے بعد کہیں جا کر ختم ہوتے ہیں۔ایک اور خطرہ یہاں موجود تمر کے جنگلات کو ہے۔
پسنی کا اس ساحل پر سمندری طوفان اور سونامی سے نمٹنے کے لیے تمر کے جنگلات لگائے گئے تھے لیکن بلدیہ پسنی ان جنگلات سے چند میٹر کے فاصلے پر کچرا اکٹھا کر رہی ہے۔ماہرِ حیاتیات ڈاکٹر عرفان بیگ اپنے ایک بلاگ میں لکھتے ہیں کہ ’تمر کے جنگلات کی وجہ سے نہ صرف سمندری حیات کی افزائش نسل میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مینگروز کی یہی جڑیں سمندر اور ساحل کے درمیان ایک مضبوط دیوار کی حیثیت رکھتی ہیں جو سمندر کو ساحل کی طرف اور ساحل کو سمندر کی طرف آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ تمر کا درخت سمندر اور ساحل کے درمیان محافظ کا کام کرتا ہے۔‘تمر کے جنگلات جھینگے کی افزائش کے لیے بھی اہم ہیں، لیکن اب ساحل پر جمع کچرہ جنگلات میں داخل ہو کر اٹک جاتا ہے، جس سے جھینگے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
جب ہم نے بلدیہ کا ردِ عمل لینے کی کوشش کی تو ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ مکران ظہور شاہ نے کہا: ’ہم کسی کو ساحل کو آلودہ کرنے نہیں دیں گے اور سمندری حیات کی بقا کے لیے ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے پورے ضلعے میں ڈمپنگ ایریا کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر کو مراسلہ بھیجا ہے۔‘جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ پسنی کے ساحل کو بلدیہ پسنی کوڑا دان بنا رہی ہے تو انہوں نے کہا: ’اس حوالے سے میں نے اپنے انڈر سب اسٹیشن کو بتایا تھا کہ ساحل کے قریب کوئی کچرا نہ پھینکا جائے۔‘