کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چھ روز میں ہسپتال کی تعمیر کا کام شروع

012620207

چینی شہر ووہان ان دنوں خطرناک کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہے۔ شہر میں وائرس سے نمٹنے کے لیے چھ دن میں ہسپتال بنانے کا کام زور شور سے جاری ہے تاکہ بروقت متاثرین کا علاج کیا جا سکے۔چین میں اب تک کورونا وائرس کے 830 کیسز سامنے آچکے ہیں اور ملک بھر میں 41 افراد کورونا وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔چین کے 110 لاکھ آبادی والے شہر ووہان سے ہی اس خطرناک وائرس کا پھیلنا شروع ہوا تھا۔ووہان کے ہسپتالوں میں فی الحال صورت حال خوفناک ہے۔ مریضوں کی بھیڑ ہے اور ادویات کی دکانوں پر سٹاک ختم ہو چکا ہے لیکن ادویات کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق نئے ہسپتال میں 1000 بستروں کا انتظام ہو گا۔چین نے چھہ روز میں ہسپتال کی تعمیر مکمل کرنے کا اعلان کیا ہے

چین کی سرکاری میڈیا کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہسپتال کے لیے 25 ہزار مربع میٹر علاقے میں کھدائی کا کام شروع ہو چکا ہے۔

اسی طرح سنہ 2003 میں چین نے بیجنگ میں سارس وائرس سے نمٹنے کے لیے ایک ہسپتال بنایا تھا۔ہارورڈ میڈیکل سکول میں گلوبل ہیلتھ اینڈ سوشل میڈیسن پڑھانے والی یوان کاؤفمن کا کہنا ہے کہ ’یہ ہسپتال ایک خاص وبا کے پھوٹنے کے باعث بنایا جا رہا ہے اور اس میں کورونا وائرس کے متاثرین کا ہی علاج کیا جائے گا۔ اسی لیے یہاں سخت سکیورٹی انتظامات بھی ہوں گے۔‘

کونسل آف فارن رلیشنز میں گلوبل ہیلتھ کے سینیئر فیلو یانجونگ ہوانگ نے بتایا کہ ’بڑے سے بڑے منصوبے کو جلد مکمل کرنے میں چین کا ریکارڈ رہا ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ 2003 میں بھی بیجنگ میں سات دنوں کے اندر ہسپتال بنایا گیا تھا اور اب شاید اسی ریکارڈ کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بیجنگ کے ہسپتال کی ہی طرح ووہان کا ہسپتال بھی عمارت بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ’پری فیبریکیٹیڈ مٹیریئل‘ یعنی ’پہلے سے تیار شدہ اشیا‘ سے بنایا جائے گا۔ہوانگ کہتے ہیں کہ ’ایسے کاموں میں ملک دفتری طوالتوں اور معاشی رکاوٹوں کو پار کرنے اور ذرائع فراہم کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔‘

ہوانگ کا کہنا ہے کہ اس کام کو وقت پر ختم کرنے کے لیے ملک بھر کے مختلف علاقوں سے انجینیئروں کو بلایا گیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’انجینیئرنگ کے کام میں چین بہت آگے ہے۔ تیزی سے اونچی عمارتیں بنانے میں اس ملک کا کوئی مقابلہ نہیں۔ مغربی ممالک کو یہ بات سمجھنے میں مشکل ہو گی لیکن یہ عین ممکن ہے۔‘

ادویات کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ووہان یا تو دوسرے ہسپتالوں سے ادویات لے سکتا ہے یا براہ راست ادویات کے کارخانوں سے منگوا سکتا ہے۔‘جمعہ کو گلوبل ٹائمز نے تصدیق کی تھی کہ پیپلز لبریشن آرمی کے شعبہ صحت کے 150 کارکنان وہاں پہنچ چکے ہیں۔حالانکہ اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی ہے کہ ہسپتال کی تعمیر مکمل ہو جانے کے بعد بھی وہ یہیں کام کریں گے یا واپس بھیج دیے جائیں گے۔

2003میں سارس کے متاثرین کی مدد کے لیے بیجنگ میں زیوتانگشان ہسپتال بنایا گیا تھا۔اس کی تعمیر کا کام سات دن میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر اس نے دنیا کے کسی بھی ہسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے سب سے کم عرصے کا ریکارڈ بنایا تھا۔چائنا ڈاٹ کوم میں شائع رپورٹ کے مطابق اس ہسپتال کو بنانے کے لیے تقریباً 4000 افراد نے دن رات کام کیا تھا۔اس ہسپتال میں ایکس رے کا کیمرا، سی ٹی سکین کا کمرا، آئی سی یو اور لیبارٹری شامل تھے۔ ہسپتال کے ہر ایک وارڈ میں ایک باتھ روم تھا۔ہسپتال کی تعمیر کے دو ماہ بعد ملک بھر میں موجود تمام سارس متاثرین کا ساتواں حصہ اس ہسپتال میں داخل تھا۔ چین کی میڈیا میں اسے ’طبی تاریخ میں معجزہ‘ قرار دیا گیا تھا۔یوان کاؤفمن کہتی ہیں کہ ’وزارت صحت نے اسے بنانے کا حکم دیا تھا اور دیگر ہسپتالوں سے نرسوں اور ڈاکٹروں کو وہاں بلایا گیا تھا۔ ان کے پاس متاثرین کی شناخت اور ان کے علاج کے لیے ضروری ہدایات کی لسٹ تھی۔‘

کاؤفمن کہتی ہیں کہ ’میرے لیے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ فی الحال یہ تمام اخراجات ووہان کی حکومت کے اوپر آنے والے ہیں۔ لیکن اس وقت انھیں اسے ہی سب سے زیادہ ترجیح دینی ہے۔‘ہوانگ بتاتے ہیں کہ سارس کی وبا کے ختم ہونے کے بعد بیجنگ کے ہسپتال کو خالی کر دیا گیا تھا۔