دنیا میں %5 لوگ سونگھنے کی حس سے محروم ہیں

012720204

مجھے نہیں معلوم کھانے کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟‘ہم سب کی کوئی نہ کوئی پسندیدہ خوشبو ضرور ہوتی ہے، کوئی ایسی خوشبو جو کسی خاص شخص، یاد یا کسی مزیدار کھانے سے وابستہ ہو۔گیبریلا کبھی بھی سونگھنے کی اس حِس کا استعمال نہیں کر سکیں اور اس کا اثر ان کے ناک کے علاوہ دیگر اعضا پر بھی ہوا ہے۔22 برس کی گیبریلا نے بتایا ’مجھے نہیں معلوم کے کھانے کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، میں گرم مشروبات یا میٹھی اور مصالحے دار چیزوں کو نہیں چکھ سکتی۔‘یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے بہت زیادہ لوگ متاثر ہوں،

دنیا بھر میں صرف پانچ فیصد لوگ سونگھنے کی حس سے محروم ہیں۔انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کی ایک نئی تحقیق کے مطابق سونگھنے کی حس سے محرومی انسان کی زندگی پر عملی اور جذباتی سطح پر مختلف طرح سے اثرانداز ہوتی ہے۔بچپن کے خوف اور نوجوانی کے کچھ عجیب لمحات اور اپنے بچے کی نیپی کو تبدیل کرنے کی ضرورت بتانے کے قابل نہ ہونے پر ناکامی کے احساس کے بارے میں ذرا سوچیے۔پوری دنیا میں صرف پانچ فیصد لوگ سونگھنے کی حس سے محروم ہیں.’میں کبھی بھی کسی چیز کو نہیں سونگھ سکی، یہ عجیب ہے کیونکہ میرے خاندان میں کسی اور کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں، یہ صرف میرے اور میری بہن کے ساتھ ہے لہذا یہ جینیاتی ہو سکتا ہے۔‘آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ نہیں سونگھ سکتیں؟

گیبریلا بچپن میں سکول کے ایک خاص پراجیکٹ میں پیچھے رہ جانے کو یاد کرتی ہیں۔’یہ سونگھنے کی حِس کے بارے میں تھا اور ہر کوئی چیزوں کو سونگھنے کے بارے میں بات کر رہا تھا۔‘’یہ وہ موقع تھا جب مجھے احساس ہوا کہ میں نہیں سونگھ سکتی۔ ہر کوئی مثالیں دے رہا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔‘اس وجہ سے گیبریلا کو بچپن میں کچھ مسائل ہوئے جن کا شاید انھیں دوسری صورت میں سامنا نہ کرنا پڑتا۔انھوں نے بتایا ’مجھے آگ سے بہت ڈر لگتا تھا۔ مجھے شدید بے چینی ہوتی تھی کہ اگر گھر کو آگ لگ گئی تو اس کی بو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے میں جاگ نہیں پاؤں گی۔‘’جب میں چھوٹی تھی تو یہ واقعی ہی مجھ پر اثرانداز ہوا لیکن میں اس سے باہر نکل آئی۔‘

گیبریلا کبھی بھی اپنی خوشبو کی حس کا استعمال نہیں کر سکیں اور اس کا اثر ان کے ناک کے علاوہ بھی ہوا ہےعملی مسائلیونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا میں ہونے والی اس تحقیق کے محقق پروفیسر کارل فلپوٹ کے مطابق ’گیبریلا کو یہ خوف ایک سنجیدہ وجہ سے تھا، گیس یا دھویئں کی بو نہ سونگھنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے کچھ لوگوں کو سنجیدہ مسائل ہو سکتے ہیں۔‘گیبریلا بتاتی ہیں ’مجھے یاد ہے جب میں ایک مرتبہ گھر میں کھانا بنا رہی تھی۔ میری والدہ گھر آئیں اور کہا کہ پورے گھر سے گیس کی بو آ رہی ہے۔ تو وہ بہت بریشان کُن تھا۔‘’اس طرح کی چیزوں سے خوفزدہ ہوتے ہوئے ہی میں بڑی ہوئی ہوں۔ لیکن اب میں بہت محتاط رہتی ہوں اور احتیاطی تدابیر اپناتی ہوں۔ ‘یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے مطالعے کے مطابق یہ معاملہ صرف بیرونی دنیا کی بوؤں کا نہیں کیونکہ ذاتی حفظان صحت ’پریشانی اور شرمندگی کی ایک بڑی وجہ تھی‘ کیونکہ آپ میں سے کیسی بُو آ رہی ہے آپ یہ بھی نہیں سونگھ سکتے۔

نوعمر ہونے کے باوجود گیبریلا نے اس کا ایک حل نکالا۔ ’میں نے اور میرے والدین نے کچھ خفیہ الفاظ بنا لیے۔‘’تو اگر میں گھر ایک دوست کے ساتھ آؤں اور مجھ سے بدبو آ رہی ہو تو وہ مجھے بتا سکیں اور میں جلدی سے اس کو حل کروں۔‘گیبریلا اب ایک رقاصہ ہیں اور ان کا طرز زندگی بہت متحرک ہے۔ گیبریلا کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ان کے اردگرد لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ نہیں سونگھ سکتیں.’میں نے کبھی پرفیومز یا اس طرح کی اشیا نہیں رکھیں۔ پھول یا غسل میں استعمال ہونے والی خوشبوؤں میں مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔‘’لیکن میں ڈیوڈرنٹ کا استعمال کرتی ہوں کیونکہ میں روزانہ ڈانس کرتی ہوں، جبکہ مجھے ایسی اشیا میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘’لوگوں سے کھل کر بات کریں‘اس بارے میں بات کرنا شاید کچھ عجیب لگتا ہو لیکن گیبریلا کہتی ہیں کہ سونگھنے کی حس سے محرومی باعث شرمندگی نہیں۔’

میرے خیال میں دوستوں اور اپنے اردگرد موجود لوگوں سے اس بارے میں کھل کر بات کرنا اہم ہے تاکہ اگر آپ سے بدبو آ رہی ہے تو وہ آپ کو بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔‘’میں ہمیشہ اس بات کو یقینی بناتی ہوں کہ میرے اردگرد لوگوں کو معلوم ہو کہ میں نہیں سونگھ سکتی۔‘میں انھیں کہتی ہوں ’برائے مہربانی مجھے بتائیں اور میں بُرا محسوس نہیں کروں گی۔ بجائے یہ کہ میں اسے سب کے لیے ناخوشگوار بنا دوں، مجھے اس بارے میں پتا ہونا چاہیے۔‘

کیا گیبریلا چیزوں کو سونگھنے کی خواہش رکھتی ہیں؟اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کچھ ایسا نہیں جس کی مجھے ضرورت محسوس ہو کیونکہ یہ میرے پاس کبھی نہیں تھی تو مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کھو رہی ہوں۔‘’لیکن میں اس کا تجربہ کرنا ضرور پسند کروں گی اور چیزوں کو چکھنے کو محسوس کرنا چاہوں گی۔‘