اٹک میں پہلی مرتبہ ’بازداروں‘ کا مقابلہ شکاری امڈ آئے
باز ویسے تو خود ایک شکاری ہے لیکن آج کل شکاریوں نے اسے شکار کيلئے اپنا ہتھيار بنا ليا ہے۔ اٹک میں ان شکاری بازداروں کا پہلا مقابلہ ہوا جس میں مختلف علاقوں سے شوقین افراد نے شرکت کی۔
باز کوجنگل سے پکڑ کر پالتو بنانا بڑا محنت طلب کام ہے۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ مشقت خود باز کو ہی اٹھانا پڑتی ہے۔ایک بازدار نے بتایا کہ باز کی جو جنگل کی یادداشت ہوتی ہے اس کو واش کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اسے جگراتا کروایا جاتا ہے۔ پانچ سے چھ دن چوبیس گھنٹے اس کو سونے نہیں دیتے۔پاکستان میں یوں تولائسنس ہولڈرز کو شکار کی اجازت ہے لیکن اس شکار میں باز کو آلہ کار بنانے کے حوالے سے قانون خاموش ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ اس کا بھی ایک فریم ورک ہے جس میں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے وہ شامل ہے۔ جب ہماری پالیسی آئے گی تو اس میں یہ سب شامل ہوگا۔یہ شکاری پہلے تو باز کو غیرقانونی طور پر پکڑتے ہیں۔ بعد میں لائسنس کی فیس دے کر اس غیرقانونی عمل کو قانونی بنا لیتے ہیں۔
پاکستان میں پایا جانے والا یہ باز پرندوں کی نایاب نسل میں سے ایک ہے۔ ایسے میں بازداری کا فروغ اسے بچانے کے اچھا قدم ثابت ہو گا یا نہیں یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا۔