سوات میں خواجہ سراؤں اور پولیس کا تنازع؟

012820204

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں خواجہ سراؤں اور پولیس کے مابین ’تنازع‘ طول پکڑ گیا ہے۔ خواجہ سرا پولیس پر عدم تعاون اور تشدد کے ملزمان کی طرف داری کے الزامات عائد کر رہے ہیں جبکہ پولیس کا کہنا ہے خواجہ سراؤں پر تشدد کے ملزمان کو گرفتار کیا تھا ان کو عدالت نے رہا کیا ہے۔ دوسری جانب پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کرنے والے خواجہ سراؤں کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔

تنازع کیا ہے؟ نایاب نامی خواجہ سرا نے 21 جولائی کو تھانہ منگورہ میں رپورٹ درج کراتے ہوئے کہا کہ ساجد اور حسین نامی افراد نے اس پر حملہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور زبردستی ساتھ لے جانے کی کوشش کی مگر چیخ و پکار پر ملزمان فرار ہوگئے۔پولیس مقدمہ درج کرنے کے باجود ملزمان کو گرفتار کرنے سے گریز کرتی رہی مگر خواجہ سراؤں کے احتجاج کے باعث دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا اور 25 جنوری کو عدالت میں پیش کیا جہاں سے دونوں ضمانت پر رہا ہوگئے۔

خواجہ سراؤں کا الزام ہے کہ پولیس نے پہلے ملزمان کی گرفتاری میں تاخیر کی اور مقدمہ بھی کمزور بنایا جس کے باعث ملزمان کی رہائی ممکن ہوئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی رہائی عدالت کا فیصلہ ہے۔ اس میں پولیس کا کوئی قصور یا کردار نہیں۔پولیس اسٹیشن پر حملہ ملزمان کی رہائی کے بعد منگورہ کے خواجہ سراؤں نے اکھٹے ہوکر تھانے پر پتھراؤ کردیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت صحافیوں کی بنائی گئی ویڈیوز سامنے آئیں۔ ان ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بعض خواجہ سرا پولیس اسٹیشن کی جانب پتھر پھینک رہے ہیں۔

خواجہ سراؤں کا الزام ہے کہ وہ احتجاج کرنے تھانے پہنچے تو پولیس اہلکاروں نے ان سے بدتمیزی کی اور ان کو باہر دھکیل کر دروازہ بند کردیا جس پر احتجاج میں شریک بعض خواجہ سراؤں نے پتھر پھینکے۔پولیس کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہاتھا پائی کی جس میں اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ اسی وجہ سے دروازے بند کرکے ان کو باہر نکالا گیا۔خواجہ سراؤں کی گرفتاری..پولیس نے تھانے پر پتھراؤ کا مقدمہ درج کرنے کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے 10 خواجہ سراؤں کی شناخت کرکے ان کو گرفتار کیا اور عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

خواجہ سراؤں کا احتجاج اور پریس کانفرنس….پیر کو مینگورہ میں خواجہ سراؤں نے منگورہ میں پہلے پریس کانفرنس کی اور اس کے بعد احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ ٹرانزایکشن الائنس کے صوبائی صدر فرزانہ الیاس نے کہا کہ ہم بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہم معاشرے میں اپنا جائز مقام چاہتے ہیں۔ ہم دوسروں پر ظلم نہیں کرتے۔ دوسرے لوگ بھی ہم پر ظلم نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ جہاں ہم رہتے ہیں وہ بالا خانے یاحجرے نہیں بلکہ ہمارے گھر ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں مداخلت نہیں چاہتے۔ مگر پولیس بھی ہمارے گھروں پر چھاپے مارتی ہے اور دیگر لوگ بھی بالاخانے سمجھ کر گھس جاتے ہیں اور پھر تشدد بھی کرتے ہیں۔

فرزانہ الیاس نے کہا کہ ہمارے جن ساتھیوں نے پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا، ہم اس کی حمایت نہیں کرتے۔ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے مگر جب ہم شکایت کرتے ہیں تو کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ ہماری ساتھی نایاب کی میڈیکل رپورٹ تبدیل کردی گئی۔ تھانے میں رپورٹ بھی کمزور درج ہوئی جس کے سبب ملزمان کو رہائی مل گئی۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور دیگر حکام خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے حوالے سے فوری تحقیقات کرکے انصاف اور تحفظ فراہم کریں۔پولیس کا موقفڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) سوات سید اشفاق انور نے کہا ہے کہ 21 جنوری کو ایک خواجہ سراء نے رپورٹ درج کراتے ہوئے کہا کہ دو افراد ساجد اور حسین نے ان کے ساتھ لڑائی کی ہے جس پر مینگورہ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کیا اور مقامی عدالت میں پیش کیا جہاں سے ان کی ضمانت ہوئی۔ اگلے روز خواجہ سراؤں نے مینگورہ پولیس سٹیشن پر حملہ کیا اور پولیس اہلکاروں کو زخمی بھی کیا۔ جس پر قانون کے مطابق کاروائی کی گئی۔

ڈی پی او نے کہا کہ قانون میں خواجہ سراؤں کو تحفظ حاصل ہے اور اگر وہ قانون کے تحت کام کریں گے تو ان کو پولیس ہر مکمن تحفظ فراہم کرے گی۔ اگر قانون ہاتھ میں لیا جائے گا تو قانون سب کے لئے برابر ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ بھی رعایت نہیں برتی جائے گی۔انہوں نے خواجہ سراؤں کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سی سی ٹی وی کیمروں میں سب کچھ محفوظ ہیں۔ اور شکایت کنندہ خواجہ سرا کی میڈیکل رپورٹ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اسپتال کی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔