لاہور آتشزدگی میں 11 جانبحق، گھر میں فیکٹری کی اجازت کس نے دی؟

012920205

ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروزوالا کے علاقے امامیہ کالونی کی تنگ گلیوں میں واقعہ دو منزلہ گھر کے اندر ایک باڈی سپرے بنانے والی فیکٹری میں گذشتہ رات آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ ابھی معلوم نہیں۔ریسکیو ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچی اور آگ بجھانے کا کام شروع کیا مگر اسی دوران عمارت میں دھماکہ ہوگیا (ریسکیو 1122).پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروزوالا کے علاقے امامیہ کالونی کی تنگ گلیوں میں واقعہ دو منزلہ گھر کے اندر ایک باڈی سپرے بنانے والی فیکٹری میں گذشتہ رات آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہوگئے تاہم آگ کی وجہ ابھی معلوم نہیں۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق نے بتایا کہ ابتدائی طور پر انھیں آگ لگنے کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد ریسکیو ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچی اور آگ بجھانے کا کام شروع کیا مگر اسی دوران عمارت میں دھماکہ ہوا جو یا تو کسی کیمیکل کا تھا یا پھر اندر پڑا کوئی سیلنڈر پھٹا، جس کے بعد دو منزلہ عمارت زمیں بوس ہو گۓئی۔ایس ایچ او تھانہ فیروزوالا عامر محبوب نے بتایا کہ یہ ایک چھوٹا سا یونٹ تھا جس کے اوپر والی منزل پر کرائے دار رہتے تھے۔ جب آگ بھڑکی اور اندر سیلنڈر پھٹے تو عمارت گر گئی جس کے سبب کچھ لوگ آگ لگنے سے جھلس گئے جبکہ کچھ عمارت کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہوئے۔اس یونٹ کے مالک جمیل اور ایک اور شخص لاپتہ ہیں جن کے بارے میں یہ شبہہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

سول ڈیفینس کی مدعیت میں جمیل کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ آگ اور عمارت گرنے سے ارد گرد کے گھر بھی متاثر ہوئے۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر رہائشی علاقوں میں یہ فیکٹریاں کیسے بن جاتی ہیں اور ان کی اجازت کون دیتا ہے؟ایل ڈی اے کی حکام نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ فیروزوالا ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ ان کا کہنا درست تھا۔

امامیہ کالونی کے بارے میں لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ یہ لاہور کا علاقہ ہے لیکن اصل میں یہ ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروزوالا کا حصہ اور یہاں کے رہائشی علاقوں میں غیر قانونی طور پر کون کون سی چھوٹی فیکٹریاں کام کر رہی ہیں انھیں دیکھنا اور ان کے خلاف ایکشن لینا میونسپل کمیٹی کا کام ہے جو کہ ڈپٹی کمشنر کے متحت کام کرتی ہے۔شیخوپورہ کے ایک سینیئر صحافی شاہد خان جو میونسپل کمیٹی کی بیٹ کوور کرتے ہیں نے بتایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں اور ایسے حادثات شیخوپورہ میں آئے روز ہوتے رہتے ہیں کیونکہ یہ کالونیاں بغیر کسی جانچ پڑتال اور اجازت ناموں کے قائم کی جاتی ہیں اور ایسی چھوٹی فیکٹریاں اور یونٹس جگہ جگہ گھروں میں قائم کیے گئے ہیں، ان کا کوئی سروے نہیں ہوتا۔جانچ پڑتال اور سروے میونسپل کمیٹی کا کام ہے اور شیخوپورہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں یہاں کے لوکل میڈیا نے کئی بار اس بات کو ہائی لائٹ کیا مگر انتظامیہ ان کے خلاف کوئی بھی ایکشن لینے سے اجتناب کرتی ہے۔ان کے مطابق زیادہ تر میونسپل کمیٹی کے اہلکار ان چیزوں سے چشم پوشی کرتے ہیں جس کی بہت ساری وجوہات ہیں جس میں رشوت بھی شامل ہے۔شاہد کا کہنا تھا کہ 11 لوگوں کی جان چلے جانا کوئی چھوٹی بات نہیں اور اس معاملہ کو اگر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو اس سے بڑا کوئی واقعہ بھی پیش آسکتا ہے۔

اگر اس سارے معاملے کو قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو ایڈووکیٹ زین علی نے بتایا کہ رہائشی علاقے میں کسی قسم کی کمرشل سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر لاہور کی بات کریں تو وہاں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی رہائشی علاقوں کی جانچ پڑتال کرتی ہے اور کمرشل سرگرمی کو دیکھتے ہوئے وہ رہائشیوں کو نوٹس جاری کرتے ہیں مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ نوٹس جاری ہونے کے کچھ عرصہ بعد ایل ڈی اے بھی بھول جاتی ہے اور وہ کمرشل سرگرمی واپس وہیں شروع ہو جاتی ہے۔زین نے بتایا کہ قانون کے مطابق رہائشی علاقوں میں بغیر این او سی کے کمرشل سرگرمیاں کرنے والوں کو کم از کم چھ ماہ قید کی سزا ہوتی ہے۔

رہائشی علاقوں میں غیر قانونی کمرشل سرگرمیوں کی اجازت اور ان کی جانچ پڑتال کے حوالے سے شیخوپورہ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رانا شکیل اور ڈپٹی کمشنر سدرہ یونس سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی اور انھیں پیغامات بھی چھوڑے مگر ان کی جانب سے جواب موصل نہیں ہوا۔