سینتالیس سالہ رفاقت بعد برطانیہ کی یورپی یونین سےعلیحدگی، آگے کیا ہوگا؟
برطانیہ جمعے کو یورپی یونین سے باقاعدہ علیحدگی اختیار کرنے جا رہا ہے، جس کے ساتھ ہی قریبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ چار دہائیوں پر مشتمل اس کی اقتصادی، سیاسی اور قانونی شراکت کا اختتام ہوجائے گا۔تاہم آئندہ کئی مہینوں تک معاملات ویسے ہی محسوس ہوں گے، کیونکہ دونوں فریقین کو منتقلی کی مدت کے دوران اپنی مستقبل کی شراکت کی شرائط پر اتفاق رائے کرنے کے لیے وقت دیا جارہا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ میں یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق حتمی معاملات طے پانے سے قبل بریگزٹ کی تین ڈیڈ لائنز آئیں اور گزر گئیں۔جون 2016 میں ریفرنڈم کے 43 مہینوں بعد بالآخر برطانیہ آج پاکستانی وقت کے مطابق ٹھیک رات 11 بجے (2300 جی ایم ٹی) یورپی یونین کو الوادع کہہ دے گا۔
بریگزٹ معاملہ اتنا زیادہ عرصہ چلنے کی وجہ سے برطانوی شہریوں کی اکثریت کی زندگی پر کچھ زیادہ اثر نہیں پڑے گا، تاہم برطانیہ یورپی یونین کے اداروں میں نمائندگی اور ووٹنگ کے حقوق سے محروم ہو جائے گا۔برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ یکم فروری سے تجارتی مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے تاہم یورپی یونین کی رکن ریاستیں فی الحال مذاکرات کے مینڈیٹ پر غور کر رہی ہیں۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن فروری کے اوائل میں اپنی تقریر کے دوران یورپی یونین اور کینیڈا کے مابین حالیہ تجارتی معاہدے کی طرز پر برطانیہ کے لیے ایک آزاد تجارتی معاہدے جیسا خیال پیش کر سکتے ہیں۔تاہم مبصرین کے مطابق بورس جانسن کی تمام کوششوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ تجارتی معاہدے اتنی آسانی سے طے نہیں پا سکتے خاص طور پر اگر برطانیہ یورپی ملکوں کے ساتھ بہت مختلف قسم کے تعلقات رکھنا چاہتا ہو۔زیادہ تر ماہرین متفق ہیں کہ برطانیہ کے شایان شان ایسا معاہدہ جو اسے یورپ کے قریب ترین شراکت داروں میں شامل کروا دے، اس کے لیے اسے اضافی وقت کی ضرورت ہوگی۔
برسلز میں حکام کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے قومی وزرا 25 فروری کو برطانیہ سے تجارتی مذاکرات کے مینڈیٹ کی منظوری دے سکتے ہیں جس کے بعد یکم مارچ سے بات چیت کے دور شروع ہونے کا امکان ہے۔برطانیہ اسی دوران امریکہ اور یورپی یونین سے باہر ملکوں سے تجارتی گفتگو شروع کرنے کی امید کر رہا ہے۔تاہم برطانیہ نے برسلز سے صرف تجارتی معاملہ ہی نہیں طے کرنا، کیونکہ بریگزٹ سے پہلے دونوں فریقین میں سکیورٹی، قانون کے نفاذ، تعلیم، توانائی اور کئی اہم شعبوں میں قریبی تعاون تھا۔
برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کا سلسلہ یعنی ٹرانزیشن پیریڈ 31 دسمبر 2020 تک جاری رہے گا۔ اس دوران برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین صورت حال موجودہ حالات پر ہی رہی گی اور دونوں آپس میں مستقبل کے حوالے سے مذاکرات جاری رکھیں گے۔ اس سے مختلف حکومتوں، بہت سے کاروبار اور افراد کو بریگزٹ کے بعد آنے والے حالات میں ڈھلنے میں آسانی ہوگی۔
اس عرصے میں صرف ایک فرق یہ ہوگا کہ برطانیہ یورپی یونین کے اداروں کا حصہ نہیں رہ پائے گا، تاہم وہ یورپی یونین کی کسٹمز یونین اور ’سنگل مارکیٹ‘ کا بدستور حصہ اور یورپی یونین کے تجارت، سرمایہ کاری، شعبہ خدمات اور لیبر کے قواعد و ضوابط کا پاس رکھنے کا پابند ہوگا۔برطانیہ ٹرانزیشن پیریڈ کے دورانیے میں ایک سے دو سال کی توسیع کی درخواست بھی کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے اسے یکم جولائی سے قبل درخواست کرنا ہوگی۔
وزیراعظم بورس جانسن کا اصرار ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک جلد از جلد یورپی یونین کے قواعد اور ضوابط سے آزاد ہو جائے۔