اخروٹ کی پیدوار کے لیے دنیا میں مشہور کرغستان کا جنگل

020120203

ازبکستان کی سرحد سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر مغربی کرغزستان کی ایک وادی میں تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل ارسلان بوب نامی قصبہ چاروں طرف سے بلندوبالا باباشاتا کی پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے۔موسمِ بہار اور گرمیوں میں تیز بہتی دو آبشاریں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں لیکن یہاں ہر سال جو خزاں میں ہوتا ہے وہ قابل ذکر ہے۔

ہر سال ستمبر میں ارسلان بوب سے بہت بڑی ہجرت ہوتی ہے اور تقریباً تین ہزار خاندان بلند پہاڑوں میں 385 مربع میل پر پھیلی ہوئی ان ڈھلوانوں کی جانب نکل پڑتے ہیں جن کا رخ جنوب کی جانب ہے۔گاؤں سے ایک گھنٹے کے پیدل فاصلے پر واقع یہ جنگل دنیا میں اخروٹ کے درختوں کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔زیادہ تر ازبک برادری سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ اگلے دو ماہ کے لیے روایتی خیموں، مٹی کے مکانوں اور عارضی گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ کم و بیش ہر دو ہفتے بعد راشن لینے کے لیے ایک بار اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور پھر واپس آ جاتے ہیں۔ یہ وہ روایت ہے جو یہاں کئی صدیوں سے جاری ہے۔ہر سال ارسلان بوب کے ان باغوں سے ایک ہزار سے 15سو ٹن تک اخروٹ پیدا ہوتا ہے۔اپنی گہرے رنگ کی گِری کے لیے مشہور ان اخروٹوں کی پیداوار کیڑے مار ادویات سے پاک، قدرتی ماحول میں ہوتی ہے۔ یہاں کے اخروٹ دنیا کے بہترین اخروٹ سمجھے جاتے ہیں اور ہر سال یورپ اور ایشیا بھر کو برآمد کیے جاتے ہیں۔یہ چھوٹا سا قصبہ اس قدر اخروٹ کی پیداوار سے مالا مال کیسے ہوا اس بارے میں کئی داستانیں مشہور ہیں۔کچھ مقامی لوگوں کے خیال میں یہ بات پیغمبرِ اسلام کے دور سے شروع ہوئی جب انھوں نے ایک تجربہ کار مالی کو بیج دیا اور یہ نصیحت کی کہ وہ اسے کسی مناسب جگہ پر اس طرح کاشت کر ے کہ جنگل اُگ آئے۔وہ مالی، اس نصیحت کی روشنی میں، دور دراز سے سفر کرتے ہوئے ارسلان بوب پہنچا۔مالی نے برفانی پہاڑیوں کے دامن واقع ایک ایسی جگہ تلاش کی جہاں کا موسم بہترین اور جہاں صاف ستھری بہتی ندیاں اور زرخیز زمین موجود تھی۔

اس شخص کو یقین ہو گیا کہ یہ بہترین مقام ہے اور پھر اس نے پیغمبرِ اسلام کا دیا ہوا بیج بویا اور کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی یہاں اخروٹ کے جنگلات پھل پھول رہے ہیں۔سکندر اعظمایک اور مقامی کہاوت کے مطابق دو ہزار سال سے بھی زائد عرصہ قبل سکندر اعظم کے دور میں اخروٹ کے درخت ارسلان بوب سے لا کر یورپی ممالک میں بھی کاشت کیے گئے تھے۔اس کہاوت کے مطابق سکندر اعظم کی فوج مشرقی ایشیا کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی کہ اس نے اس وادی میں قیام کا ارادہ ظاہر کیا۔جنگ کے مارے ہوئے زخمی سپاہیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکا۔ سکندر اعظم کی فوج ان سپاہیوں کو ارسلان بوب سے کئی کلومیٹر دور ایک گاؤں میں چھوڑ کر نکل گئی جسے اب ’یاردار‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، ازبک میں جس کے معنی ’زخمی‘ کے ہیں۔

کچھ ماہ بعد ہی سکندر اعظم یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ وہی زخمی فوجی تروتازہ اور صحت مند ہو کر دوبارہ اس کی فوج کا حصہ بن گئے۔ان فوجیوں نے بتایا کہ جب انھوں نے خوراک کی تلاش میں جنگل کا رخ کیا تو انھوں نے بڑی تعداد میں وہاں اخروٹ، سیب اور دیگر پھل تلاش کر لیے۔ جب انھوں نے یہ پھل خوب کھا لیے تو پھر ان کی حالت بہتر ہو گئی اور وہ وہاں سے اپنے سپاہ سالار کے قافلے کا حصہ بن گئے۔اس سے سکندر اعظم اتنا خوش ہوا کہ جب وہ یورپ لوٹا تو اپنے ساتھ یہاں کے اخروٹ کے بیج بھی ساتھ لے گیا اور ان بیجوں کو یونان میں بونے کا حکم دیا۔اخروٹ کی فصلدرختوں سے اخروٹ توڑنے کا آغاز اکتوبر سے ہو جاتا ہے۔ ستمبر کے وسط میں کئی خاندان اپنے مویشیوں سمیت یہاں سے اخروٹوں کے جنگلات کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اس مقام پر پہنچ کر یہاں درختوں سے 20 کلو گرام تک کے تھیلوں میں اخروٹ جمع کرتے ہیں۔

یہ خاندان یہاں پہنچ کر مقامی محکمۂ جنگلات، جو ان باغات کا مالک ہے، سے کئی ایکڑ پر پھیلے اخروٹ کے باغ کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور پھر اگلے دو ماہ کے لیے یہ لوگ یہیں رک جاتے ہیں اور زمین پر کام کرتے ہیں۔درختوں سے اخروٹ اتارنے سے پہلے مقامی لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک مرغی یا کوئی چھوٹا مویشی ذبح کرتے ہیں تاکہ یہ سال بھی خوب پیداوار والا ہو۔ ان باغات میں کئی درخت کئی سو سال پرانے ہیں۔ اخروٹ کے ان درختوں کی زندگی ہزار سال تک کی ہوتی ہے اور اس کا قطر دو میٹر تک ہوتا ہے۔درختوں پر چڑھنے والے ماہر لوگ ارسلان بوب کے لوگ صدیوں پرانے طریقے کے مطابق ان اخروٹوں کو اتارتے آ رہے ہیں جو کہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کوئی رسہ یا بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر ہرخاندان کا سربراہ یا کوئی اور شخص اخروٹ کے درخت کی شاخوں کو پکڑ کر چوٹی تک چڑھ جاتا ہے۔اوپر پہنچ کر وہ درخت کو زور زور سے ہلاتا ہے جس سے اخروٹ نیچے گرتے اور پھر انھیں خواتین اور بچے چنتے جاتے ہیں۔

کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جنھیں خود درخت پر چڑھنے کا گُر نہیں آتا اور وہ اخروٹ توڑنے کے لیے کسی مزدور کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔یہ مزدور معمولی سا معاوضہ لیتے ہیں لیکن وہ بھی یہ کام اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر رہے ہوتے ہیں۔ مقامی جنگلات کے حکام کے مطابق ہر سال کم از کم ایک شخص کسی درخت سے گر کر مر جاتا ہے۔آنکھ مچولیکاشت کے دوران یہ بات اہم ہوتی ہے کہ دستیاب افراد کتنے ہیں۔دوران ہفتہ جب بچے گاؤں میں سکول جانے کے لیے اپنے دادا دای یا نانا نانی کے پاس ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کے والدین اکثرہرچھٹی والے دن گاؤں جا کر بچوں کو گھوڑوں پر بٹھا کر اپنے کیمپ والی جگہ لے آتے ہیں۔

ارسلان بوب کے بچے اخروٹ توڑنے کے دوران بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کے پست قد پتوں میں گرے ہوئے اخروٹوں کو تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔خیاتیلا تاریکو ارسلان بوب کی ایک سیاحتی تنظیم کے رابطہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچے اپنے والدین سے زیادہ اخروٹ اکھٹے کر لیتے ہیں۔اچھے موسم میں اگر ایک خاندان تقریباً آٹھ ایکڑ زمین کرائے پر لے تو وہ تقریباً 300 کلو گرام اخروٹ چُن لیتا ہے۔جنگل میں رہنے کا تجربہارسلان بوب کی رہائشی مہابت تیمیروا اخروٹ توڑنے کے موسم سے خاص محبت رکھتی ہیں۔ وہ خزاں جیسے موسم میں جنگل میں ہی بسیرا کرتی ہیں۔صبح گاؤں میں دودھ دھونے کے بعد وہ لکڑیاں جلا کر دودھ ابال لیتی ہیں اور پھر اخروٹ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر گھر کی بنی روٹی، پھل اور تازہ ملائی کا ناشتہ کرتی ہیں۔

اخروٹ چننے کا موسم ہی وہ خاص موسم ہوتا ہے جس میں لوگ جنگل کا رخ کرتے ہیں۔ اس عارضی قیام کے دوران زیادہ تر خاندان جنگل میں آلو کاشت کر لیتے ہیں، سیب چنتے ہیں اور سردی شروع ہونے تک اپنے جانوروں کو تازہ گھاس چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔جنگل کے کیمپوں میں رہتے ہوئے بھی، ہر خاندان اپنے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام خود کرتا ہے اور اس کے ساتھ اخروٹ سمیت وہ طرح طرح کے پھل فروٹ کھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ دودھ دہی اور چائے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ناشتے سے پہلے یہاں مقیم خاندان ایسی جگہوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ گذشتہ رات کو گرنے والے اخروٹ چنتے ہیں۔ اس کے بعد اکثر سارا وقت وہ آلو کے کھیتوں میں گزارتے ہیں۔ دوپہر کے وقت وہ اپنے پڑوسیوں کی خبر لیتے ہیں اور ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اس دوران وہ آگ تاپتے ہوئے یا آرام کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دلچسپ کہانیاں سناتے ہیں۔سورج ڈھلنے سے دو گھنٹے پہلے یہ لوگ پھر جنگل میں گرے ہوئے اخروٹ چننے نکل جاتے ہیں۔اخروٹوں سے خریداریاخروٹ چننے کے موسم میں ارسلان بوب کی دکانوں پر پیسوں کے بجائے اخروٹ دے کر خریداری ہوتی ہے۔

اخروٹ کے بدلے لوگ کھانے پینے کی چیزوں سمیت گھر کے لیے دیگر سامان کی خریداری کرلیتے ہیں جبکہ بچے بھی دکانداروں کو اخروٹ دیکر اپنی من پسند چاکلیٹ، کیک اور آئس کریم خرید لیتے ہیں۔قریب واقع اخروٹ کے جنگل میں 11 قسم کے اخروٹوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ اخروٹ جتنا بڑا ہوگا اس کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔مقامی بازار میں ان کی قیمت عموماً 500 سوم (تقریباً 7 ڈالر) سے شروع ہوتی ہے۔اکثرخریدار مقامی لوگوں سے اخروٹ تھوک کے بھاؤ خرید کر ترکی، روس، چین اور یورپ کی منڈیوں کو بھیج دیتے ہیں۔ جب تک یہ ان ملکوں میں دکانوں پر فروخت ہوتے ہیں، ان اخروٹوں کی فی کلو گرام قیمت تین گنا ہو جاتی ہے۔اخروٹ چننے والے اکثر خاندان اپنے لیے بھی اخروٹ ذخیرہ کر لیتے ہیں اور سال بھر اس سے اخروٹ کا دودھ اور کرغستان کی روائتی مٹھائی ’زنسک‘ بناتے ہیں جس میں اخروٹ کے علاوہ مکھن اور شہد ڈالا جاتا ہے۔تحفظِ جنگلات کی کوششیںاس بات کا سہرا یہاں کے محکمۂ جنگلات اور مقامی لوگوں کو جاتا ہے کہ ارسلان بوب کے ارد گرد موجود اخروٹ کے جنگلات کئی صدیوں سے محفوظ ہیں اور پھل دے رہے ہیں۔

جب یہ خاندان مقامی حکومت سے زمین کا ٹکڑا ٹھیکے پر لیتے ہیں تو یہ ٹھیکہ 49 سال تک کا ہو سکتا ہے۔ اتنے زیادہ عرصے کے لیے پٹے پر زمین لینے والے یہ خاندان اکثر اپنے بہترین اخروٹوں کے بیج محکمۂ جنگلات کو عطیہ کر دیتے ہیں۔ محکمہ یہ بیج اپنی نرسری میں بو دیتا ہے اور پھر ان سے پھوٹنے والے بہترین پودے جنگل میں کسی دوسری جگہ لگا دیتا ہے۔ یوں یہ جنگل اپنی بہترین شکل میں قائم رہتا ہے۔اخروٹ کے خشک درخت کی شاخیں کاٹنے کے لیے بھی محکمے سے اجازت لینا ضروری ہے اور اگر کوئی شخص صحتمند درخت کی شاخیں کاٹتا ہوا پایا جائے تو اسے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔لیکن اس کے باوجود اخروٹ کے جنگلات کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے ارسلان بوب کے اخروٹ کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے، جس کی وجوہات موسمیاتی تبدیلی، مویشیوں کے چرنے اور غیر موسمی بارشوں اور برفباری سے ہونے والا زمین کا کٹاؤ ہیں۔ اس کے علاوہ اب زیادہ تر نوجوان روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں اور یہاں افرادی قوت میں کمی آ رہی ہے۔گذشتہ کچھ برسوں میں مقامی اداروں نے ایسے قوانین بنائے ہیں جن میں ان جنگلات کے تحفظ کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے تعاون سے سائنسدان بھی یہاں تعلیمی ورکشاپوں کا اہتمام کر رہے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ اگر وہ کچھ اقسام کے اخروٹ نہ چنیں تو یہ جنگل مستقبل میں بھی بہترین معیار کے اخروٹ پیدا کرتا رہے گا۔

بڑی دعوت اخروٹ کے جنگل سے منسلک ایک بڑی دعوت کی قدیم روایت ابھی تک زندہ ہے اور یہ کرغز ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔دو ماہ کے اخروٹ چننے کے سیزن کے اختتام پر ہونے والی اس دعوت میں ہر خاندان کھانے بناتا ہے اور اپنے پڑوسیوں کو اس میں بلاتا ہے۔ اس موقع پر، اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ فضل کتنی اچھی رہی، مرغی یا بھیڑ ذبح کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دعوت میں روائتی پلاؤ، بھیڑ کا گوشت،روٹی، تازہ سلاد، پھل، دھی، مٹھائی اور تازہ ملائی پیش کی جاتی ہے۔کھانے کے بعد مہمان دعا کرتے ہیں کہ ان کے میزبان کو خدا اگلے سال اس سے بھی اچھی فصل سے نوازے۔