’جب وائرس کا علاج نہیں تو مریض رکھ کر کیا کریں؟‘ ترجمان پمز ہسپتال

020320201

چین سے واپس آئے طالب علم کو سیمپل لے کر جانے کی اجازت دینے پر ڈاکٹر وسیم خواجہ کا کہنا تھا کہ ’مریض کو رکھ کر بھی کیا کرنا ہے؟ جب وائرس کا علاج پاکستان میں موجود ہی نہیں ہے۔ ہم صرف ظاہر ہونے والی علامات کا علاج کر سکتے ہیں۔‘اپنی مدد آپ کے تحت چین سے مختلف پاکستانی طلبا پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ اُن کی واپسی کے بعد موجودہ حالات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اُن کی سکریننگ اور مکمل ٹیسٹ کے نتائج آنے تک انہیں علیحدہ وارڈ میں چودہ دن زیر نگرانی رکھا جا رہا ہے یا نہیں؟

پمز اسپتال اسلام آباد میں کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر دس بستروں پر مشتمل علیحدہ وارڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ترجمان پمز اسپتال ڈاکٹر وسیم خواجہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ پمز میں اس مقصد کے لیے وارڈ بنا دیا گیا ہے اور چوبیس گھنٹے کے لیے عملہ بھی تعینات کر دیا گیا ہے۔ پمز میں مشتبہ مریض کو چیک کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟اُن سے جب طریقہ کار پر سوال کیا گیا کہ تو انہوں نے بتایا کہ ’مریض کے بلغم اور خون کا سیمپل لے لیا جاتا ہے اور اُسے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیا جاتا ہے۔‘ لیکن اس دورانیے میں مشتبہ مریض کا کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ایسے مشتبہ مریض، جس کا سیمپل لے لیا جاتا ہے اور بظاہر اُن میں علامات نہ ہوں تو انہیں ہم بھیج دیتے ہیں اور انہیں ماسک دستانے پہننے کی تلقین کرتے ہیں۔‘

جب سوال کیا گیا کہ اگر بعد میں مریض کی ٹیسٹ رپورٹ مثبت آ جائے تو پھر کیا مریض کو واپس بلائیں گے؟ کیونکہ جہاں جہاں اس مشتبہ مریض نے سفر کیا ہو گا وائرس پھیل چکا ہو گا۔ تو اس پر ترجمان پمز کا کہنا تھا کہ ’مریض کو رکھ کر بھی کیا کرنا ہے؟ جب وائرس کا علاج پاکستان میں موجود ہی نہیں ہے۔ ہم صرف ظاہر ہونے والی علامات نزلہ کھانسی نمونیا کا علاج کر سکتے ہیں۔‘یاد رہے کہ ماہرین صحت نے 14 دن تک چین سے واپس آنے والے افراد کو الگ رکھے جانے کی گائیڈ لائن اس لیے جاری کی تھی تاکہ اگر اس دوران کوئی کرونا وائرس سے متاثر پایا بھی جاتا ہے تو وہ مریض یہ وائرس دوسرے لوگوں میں پھیلا نہ سکے۔ چین کی تازہ ایڈوائزری کے مطابق کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے چینیوں کی آخری رسومات پر پابندی سمیت لاش کو جلد از جلد جلا دینے کا حکم جاری ہو چکا ہے۔ یہ اقدام وبا کی شدید نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔

چین سے اسلام آباد پہنچنے والی پاکستانی شہری کی روداد:ہفتے کی شام مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے پی ایچ ڈی طالب علم فیصل ایوب پاکستان پہنچے۔ ایک شب اپنے بھائی کے گھر گزاری اور اتوار کی صبح اپنے آبائی علاقے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر مظفر آباد روانہ ہو گئے۔ فیصل ایوب سے انڈپینڈنٹ اردو نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور اُن سے گزرے دنوں کا احوال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس ستمبر میں انہوں نے ووہان کی زرعی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے غرض سے داخلہ لیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس جنوری کے شروع سے پھیل چکا تھا لیکن میڈیا میں خبریں دیر سے آئیں۔

انہوں نے بتایا کہ اُن کی یونیورسٹی میں امتحان ہو رہے تھے اور آخری پرچے کے بعد وہ 16 جنوری کو گوانشو صوبے میں دوستوں سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ گوانشو پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ ووہان میں وائرس پھیل چکا ہے۔ اس لیے وہان واپس جانے کے حالات نہیں رہے اور شہر لاک ڈاؤن ہو چکا ہے۔ اس دوران کسی پاکستانی طالب علم نے واٹس ایپ گروپ بنایا جس میں پاکستانی سفارت خانے کے اہلکاروں اور چین میں موجود طلبا کو اس گروہ میں شامل کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اُس واٹس ایپ گروپ میں 500 کے لگ بھگ شرکا موجود ہیں۔پاکستانی سفارت خانے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ووہان میں موجود پاکستانی طلبا میں مایوسی پھیلنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سفارت خانے کے ذمہ داران کسی سے رابطہ کر کے ان کی ضرورت نہیں پوچھ رہے۔ انہوں نے کہا کہ واپس بے شک نہ لائیں لیکن اُن کی ضروریات کا خیال رکھیں تو بہت سے طلبا کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا۔ لیکن اس وقت ووہان میں موجود طلبا میں ڈپریشن اور مایوسی اس لیے بڑھ رہی ہے کہ سفارت خانے کی جانب سے اُنہیں پوچھا ہی نہیں جا رہا جو کہ غلط ہے۔‘

فیصل ایوب نے مزید بتایا کہ 30 جنوری کو انہوں نے گوانشو سے کوالالمپور کی فلائٹ بُک کروائی اور ملائشیا سے بنکاک پھر وہاں سے اسلام آباد یکم فروری کو پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے گوانشو ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے سکریننگ ہوئی۔ پھر کوالامپور اور بنکاک میں بھی سکریننگ ہوئی۔ اسلام آباد ائیر پورٹ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بنیادی آلہ جس سے جسم کا مخصوص درجہ حرارت چیک کیا جا رہا ہے وہ اسلام آباد سمیت تمام ائیر پورٹس پر ایک جیسا ہے۔ اسلام آباد ائیر پورٹ پر بھی مکمل سکریننگ اور چیک اپ ہوا پھر اُس کے بعد ان کو نمبرز مہیا کیے گئے کہ اسلام آباد شہر میں پمز اسپتال سے بھی چیک اپ کروا لیں۔ طالب علم فیصل ایوب نے بتایا کہ پمز جا کر خود اپنا ٹیسٹ کرایا تاکہ تسلی ہو سکے وہاں پہنچ کر بلغم کا سیمپل دیا۔ اُن سے جب ہم نے سوال کیا کہ ڈاکٹر نے ٹیسٹ رزلٹ آنے تک چودہ دن آئسولیشن وارڈ میں کیوں نہیں رکھا تو انہوں نے کہا پمز میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے کہا کہ اگر کچھ ہوا تو آپ کو اطلاع کروا دیں گے اس دوران آپ جہاں جا رہے وہاں لوگوں میں کم گھلیں ملیں۔

ترجمان پمز سے جب مذکورہ شہری فیصل ایوب کا پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہاں سیمپل لے تو لیے ہیں لیکن رکھنے کا فائدہ نہیں، اب جو بھی اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان آ رہے ہیں خود ہی اختیاطی تدابیر کریں۔‘جب اُن سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص جو چین سے اسلام آباد پہنچا ہے وہ اسلام آباد سے مظفر آباد تک پہنچ چکا ہے لیکن اگر اس میں کچھ کرونا جراثیم ہوئے تو اس دوران جس جس سے وہ ملے گا تو کیا یہ مرض پھیلنے کا خدشہ نہیں ہو گا؟ تو انہوں نے کہا ’ہم پمز میں ایسے ہی کر رہے ہیں کہ سیمپل لے کر بھجوا دیتے ہیں اور مشتبہ مریض کوکہتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر کریں۔ اپنا کھانا پینا علیحدہ رکھے اور الگ تھلگ رہے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ جس مشتبہ مسافر کی کوئی ہسٹری نہیں تو صرف شک کی بنیاد پر ہم اس کو نہیں رکھ سکتے۔

دوسری جانب چین میں تعینات پاکستانی سفیر نغمانہ ہاشمی نے پاکستانی نیوز چینل جیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کے علاج کی بہتر سہولتیں چین کے سوا کسی اور ملک میں نہیں۔انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کرونا وائرس کے علاج کی سہولتیں نہیں، بہتری اسی میں ہے کہ چین سے طلبہ کو نہ نکالا جائے۔‘ترجمان پمز کے مطابق ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ڈاکٹرز کے لیے خصوصی تھری ایم ایم گاؤن، دستانے اور سپیشل این 95 ماسک پر مشتمل باکس بھی پمز میں پہنچ چکا ہے۔ جب کہ کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے چین کی جانب سے خصوصی ہیلتھ کٹس بھی پاکستان پہنچ چکی ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ملک میں داخلے کے لیے ہیلتھ ڈیکلریشن فارم جمع کرانا لازمی قرار دے دیا ہے۔