ڈاکٹر سارہ قریشی: ’ماحول دوست طیارہ انجن‘ تخلیق کرنے والی پاکستانی ایروناٹیکل انجینیئر 

020920206

’آسمان کا مسئلہ زمین سے زیادہ سنگین اس لیے ہے کیونکہ زمین کے برعکس فضا میں آلودگی کم کرنے کے لیے درخت نہیں اگائے جا سکتے۔ فضا کے مسئلے کو فضا میں ہی حل کرنا بہت ضروری ہے۔‘یہ کہنا ہے ایروناٹیکل انجینیئر ڈاکٹر سارہ قریشی کا، جن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ہوائی جہاز کا ایک ایسا انجن تخلیق کیا ہے جو فضا میں نقصان دہ گیسوں کا اخراج کم سے کم کر کے فضائی سفر کے ذریعے پھیلنے والی آلودگی کو کم کرنے میں مدد دے گا۔

ڈاکٹر سارہ برطانیہ کی کینفیلڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں جہاں ان کی پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کا تھیسیز ماحول دوست انجن کی تحقیق پر مبنی تھا۔بی بی سی کی فیفی ہارون نے ان سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ڈاکٹر سارہ کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوائی سفر کی صنعت فروغ پا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہازوں کے انجن سے خارج ہونے والا دھواں فضائی آلودگی اور عالمی حدت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔’زمین پر بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے مگر آسمان میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہازوں کے انجنوں سے نکلنے والا دھواں فضا میں مصنوعی بادل تشکیل دیتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فضا میں دھویں کی ایک تہہ جم جاتی ہے جس کے باعث زمین کی گرمائش فضا میں نہیں جا سکتی، جس کو گرین ہاؤس ایفیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔‘جب جہاز کا انجن ایندھن استعمال کرتا ہے تو درحقیقت دو گرین ہاؤس گیسز، یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات، پیدا ہو رہی ہوتی ہیں۔’ہم نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو جہاز کے انجن میں لگتا ہے۔

یہ آلہ جہاز کے انجن میں بننے والے دھویں کو انجن کے اندر ہی پراسیس کر کے اس میں سے پانی نکال علیحدہ کر لیتا ہے تاکہ نقصان دہ دھواں فضا میں خارج نہ ہو سکے۔‘انھوں نے بتایا کہ اس آلے کے ذریعے اکھٹا ہونے والا پانی جہاز میں ہی جمع ہوتا رہتا ہے اور لینڈنگ سے قبل اسے ایک ہی مرتبہ بارش کی صورت میں جہاز سے ریلیز کر دیا جاتا ہے۔کیا ہوا بازی کی صنعت اس کو قبول کرے گی؟اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہوا بازی کی صنعت بہت کنٹرولڈ ہے، دو سے تین بڑی کمپنیاں ہیں جو جہازوں کے حوالے سے کام کرتی ہیں۔’آٹو موبیل انڈسٹری نے بہت سے ضوابط بنا رکھے ہیں کہ سڑک پر آنے والی گاڑیاں مضر صحت دھواں خارج نہیں کریں گی اور ان ضوابط کو پورا کرنے کے لیے گاڑیوں کے انجنوں میں بہت سے آلات لگتے ہیں۔

اسی طرح ہوا بازی کی صنعت کو بھی اس حوالے سے قواعد و ضوابط کی ضرورت ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے بہت سے بڑے بین الاقوامی ادارے ابھی تک صرف اس حد تک پہنچے ہیں کہ جہاں وہ اعتراف تو کرتے ہیں کہ جہاز سے نکلنے والا دھواں ایک بری چیز ہے، لیکن ان اداروں کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔’اختلاف کرنے والے لوگوں کو میں صرف ایک بات کہتی ہوں کہ دیکھیے ہمارے پاس صرف ایک زمین ہے، اسی کو ہم نے بچانا ہے کیونکہ ہم نے اسی پر رہنا ہے۔ ہم میں سے کسی کے پاس بھی مریخ کی بکنگ نہیں ہے۔ یا تو مریخ پر بکنگ کا انتظام کر لیں یا اس کرہ ارض کو بچا لیں۔‘انھوں نے کہا کہ ہوا بازی کی صنعت کی سب سے بڑی توجہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اور اسی سوچ کی بنیاد پر انجن ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ ’اب ہم نے ڈیزائن پیرامیٹرز ایسے بنانے ہیں جو ماحول کو کم سے کم خراب کریں اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب نہ بنیں۔ ہم اسی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ اور کمپنیاں ہوا بازی کے شعبے میں ماحول کے لیے سازگار ٹیکنالوجی بنانے پر کام کر رہے ہیں مگر جس چیز پر ہم کام رہے ہیں اس پر کوئی خاص کام نہیں ہو رہا۔انھوں نے بتایا کہ جب وہ سکول میں تھیں تو اسی وقت سے وہ ہوا بازی کے شعبے سے کافی متاثر تھیں۔’خواتین سے یہ امید لگائی جاتی ہے کہ وہ مخصوص فیلڈز تک محدود رہیں، یعنی وہ کام جو آپ کے ارد گرد کا معاشرہ آپ کے لیے بہتر سمجھتا ہے۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی بیٹی ان سے بھی آگے جا کر خلاباز بننا چاہتی ہے۔ڈاکٹر سارہ ایک ماہر پائلٹ بھی ہیں۔ ’جب آپ یک دم زمین سے آسمان کی طرف اڑتے ہیں تو وہ بہت ہی شاندار احساس ہوتا ہے۔‘ڈاکٹر سارہ نے جہاز کے ذریعے فضا میں کرتب کرنا بھی سیکھ رکھا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فی الحال وہ فضائی کرتب والا کام نہیں کر پا رہیں کیونکہ پاکستان میں ایسے جہاز صرف ملٹری ہی کے پاس ہیں۔نوجوان لوگوں کو مشورہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں کیا صلاحیت ہے اور وہ کیا بننا چاہتا ہے۔’

جب آپ ایک قدم اٹھاتے ہیں تو راستے کھلتے جاتے ہیں۔ میں نے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے لیے وظائف حاصل کیے اور اس طرح چیزیں آگے آگے بڑھتی چلی گئیں۔‘’میرے پاس طالبعلم آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘’میں ان کو کہتی ہوں کہ کسی بھی چیز کا سکوپ آپ خود بناتے ہیں۔ بس آپ میں جذبہ ہونا چاہیے۔ ہمیں انفرادی سطح پر لوگوں خاص کر خواتین کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ حوصلہ ضرور دینا چاہیے کہ آپ کر سکتی ہیں۔‘