دستخط کی قیمت.. کرپشن کی ابتدا

0211202014

آج کل جو ادارے مختلف قسم کی چھان بین کر رہے ہیں، وہ ادارے لامحالہ جوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ چلا رہے ہیں۔ اُن کے سربراہ پچپن برس کی عمر کے آس پاس ہوتے ہیں۔ 60 برس کے ہونے پر وہ خیر سے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ وہ سب خیر سے پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئے ہیں، یہیں پر پل کر جوان، ادھیڑ اور بوڑھے ہونے کے بعد ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان سب کا خیال ہے بلکہ ان کو یقین ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہتی تھیں۔ جھنجوڑنے سے درختوں سے اشرفیاں اور سکے گرتے تھے۔

لوگ گھروں کو تالا نہیں لگاتے تھے۔ اس لیے تالے بنانے والی فیکٹریوں کا بھٹہ بیٹھ گیا تھا۔ تالے بنانے والے بہت سے کاریگر بھارت چلے گئے۔ باقی جو رکے ہوئے تھے، وہ اس اُمید پر رکے ہوئے تھے کہ حالات پھر سے پہلے جیسے ہوجائیں گے۔ لوٹ کھسوٹ کے ساتھ چوری چکاری کا دھندا پھر سے چل نکلے گا۔ لوگوں کو گھر سے باہر جانے سے پہلے کواڑ کو تالا لگانے کی ضرورت پڑے گی۔ پھر سے تالا بنانے کی انڈسٹری پھلنے پھولنے لگے گی۔

روڈ راستے گلاب کے پانی سے دھلتے تھے۔ مینھ کی بوندوں کیساتھ آسمان سے موتی برستے تھے۔ لوگ خوشحال تھے۔ زکوٰۃ نکالتے تو لینے والا نہیں ملتا تھا۔ اس لیے زکوٰۃ کی رقم افریقی ممالک میں بسنے والے غریب مسلمانوں کو بھیجی جاتی تھی۔ اللہ سائیں کے نام پر کسی کو کچھ دینا ہو تو ضرورت مند نہیں ملتے تھے۔ دنیا بھر سے لوگ اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرنے کیلئے اپنے بچوں کو پاکستان بھیجتے تھے۔ چھان بین کرنیوالے اداروں کے سربراہان کو یقین ہے کہ انکے پیدا ہونے سے پہلے پاکستان اعلیٰ اخلاق کے لوگوں کا مسکن تھا۔ ساری گڑبڑ پاکستان بننے کے دس سال بعد، 1950 کی دہائی سے شروع ہوئی۔ ایک چھوٹے موٹے سرکاری افسر نے قائداعظم کی کرسی سنبھال لی اور ملک کا سربراہ بن بیٹھا۔ اس طرح لوٹ کھسوٹ اور چھینا جھپٹی کا دور شروع ہوا جو آج تک قائم اور دائم ہے۔ سی ڈی میں پاکستان کے پہلے دس برسوں میں ہوش اڑا دینے والی کرپشن کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ کرپشن کرنے والوں نے پہلے دس برسوں میں کرپشن کی بےحد مضبوط بنیاد ڈال دی تھی۔

بنیاد اس قدر وسیع تھی کہ آنیوالے کرپٹ لوگوں نے ملک میں کرپشن کے قلعے کھڑے کردیے۔ان دس برسوں میں پاکستان کی تاریخ کی میگا کرپشن نے روزِ اول سے نئے ملک کی بنیادیں اکھاڑ کر رکھ دی تھیں۔ اتنی بڑی کرپشن تھی کہ آج تک کھوج لگانے والے اداروں میں کام کرنیوالے ماہر اس میگا کرپشن کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں یا پھر کہاوتوں کے مطابق ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ؟ ہمیں پلٹ کر پیچھے دیکھنا نہیں ہے۔ جو ہو چکا وہ ہو چکا۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ اس سوچ نے پاکستانی شعور میں پنجے گاڑ دیے ہیں۔

ماضی سے ہم سبق سیکھتے ہیں۔ کی گئی غلطیوں کا تجزیہ کرتے ہیں مگر ہم نے ’’مٹی پاؤ‘‘ کہہ کر ماضی سے سیکھنے کے دروازے بند کردیئے ہیں۔ اب تو ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر سوچنے سے گریز کرتے ہیں، بلکہ بےسود سمجھتے ہیں۔ ایسے میں کس کو فرصت ہے ماضی کی اس میگا کرپشن کے بارے میں سوچنے کی جس نے پاکستان میں کرپشن کا وائرس پھیلا دیا تھا۔ اس وائرس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اب تو کرپشن کی بہتی گنگا میں ڈبکی لگانے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ کرپشن ہماری ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔

رشتے ناتے جوڑنے سے پہلے پوچھ گچھ کی جاتی ہے کہ لڑکا سوکھی تنخواہ پہ گزارا کرتا ہے، یا اوپر کی آمدنی کا بھی کوئی وسیلہ ہے اس کے پاس؟ جواب میں سنتے ہیں:اللہ کا فضل ہے۔ لڑکے پر چھپر پھٹا رہتا ہے پیسے اس پر برستے رہتے ہیں۔ ہم ماضی میں بوئے ہوئے بیجوں کی فصل مستقبل میں کاٹتے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہم نے کرپشن کا جو بیج بویا تھا وہ آج کرپشن کے تناور درختوں کا جنگل بن چکا ہے۔ آپ میرے ساتھ آئیے۔ ہم وقت کا تانا بانا لپیٹتے ہیں اور ماضی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔پاکستان بننے کے بعد ہندو اور سکھ بےپناہ دولت اور املاک چھوڑ کر بھارت اور دیگر ممالک چلے گئے تھے۔

ہندو اور سکھوں کی متروکہ املاک اور جائیداد ہندوستان سے آنے والوں میں تقسیم کرنے کے قوانین بنائے گئے تھے۔ چونکہ ہندوستان سے آنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو فسادات میں تہس نہس ہونیوالے علاقوں سے آئے تھے، لہٰذا قوانین آسان بنائے گئے تھے۔ قوانین میں چھان بین کی گنجائش تھی۔ اس گنجائش کا بیورو کریٹس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ایک قسم نامہ دو گواہوں کی تصدیق کیساتھ کہ کانپور میں آپ دو ہزار گز پر بنی ہوئی کوٹھی کے مالک تھے اور فسادات میں کوٹھی کے کاغذات جل کر راکھ ہوگئے تھے، آپ کو قسم نامہ جمع کروانا پڑتا تھا۔

اس کے بعد افسران پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ تصدیق کروائیں یا قسم نامہ قبول کرلیں۔ اس طرح آپ کسی ہندو کی چھوڑی ہوئی کوٹھی کے مالک بن سکتے تھے دو گواہوں کی تصدیق کے ساتھ اپ قسم نامہ جمع کراسکتے تھے کہ بنارس کالج میں آپ پروفیسر ہوتے تھے۔ آپ کسی کالج میں پروفیسر لگ سکتے تھے۔ دو گواہوں کی تصدیق کیساتھ آپ کلیم داخل کرسکتے تھے کہ بنگلور میں آپ ایک سینما کے مالک تھے۔ اس طرح آپ کراچی میں ہندوئوں کے چھوڑے ہوئے کسی ایک سینما کے مالک بن بیٹھتے تھے۔

یہ سب ممکن ہوتا تھا افسران کے ایک دستخط کے بعد۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس ایک دستخط کی قیمت کیا ہوتی تھی۔ اس بے ایمانی اور رشوت خوری کے نتیجے میں، جو لوگ ہندوستان میں بہت کچھ چھوڑ آئے تھے، ان کو کچھ نہیں ملا۔ اور جو لوگ ہندوستان میں کنگلے تھے، وہ کلیموں کے کاروبار میں کروڑ پتی اور ارب پتی بن بیٹھے۔ ایسی کرپشن کی دوسری کوئی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی یہ تھی پاکستان میں کرپشن کی بھرپور ابتدا۔