قوت گویائی سے محروم افراد کی مشکلات
’پاکستان میں ہر جگہ کی اپنی اپنی سائن لینگوئج مسائل کی اہم وجہ ہے‘زندگی میں پہلی بار کسی کا انٹرویو کرنے کے لیے مجھے انھیں مائیک لگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ انٹرویو شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنے کیمرہ بیگ سے مائیک نکالا، اسے آن کیا، اس کی آڈیو چیک کی اور جن کا انٹرویو کرنا تھا جب ان کو مائیک لگانے لگا تو خیال آیا کہ یہ تو قوت گویائی سے محروم ہیں۔
یکلخت ایک ندامت کا احساس ہوا اور میں نے مائیک ایک طرف رکھ دیا۔قوت سماعت اور گویائی سے محروم کسی بھی فرد کا انٹرویو کرنے کے لیے یا ان سے بات کرنے کے لیے ایک مترجم کا ہونا ضروری ہے۔ میں نے جن کا انٹرویو کرنا تھا اس کے لیے موجود انٹرپریٹر کو عین وقت پر ایمرجنسی کی صورت میں ہسپتال جانا پڑا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ اسلام آباد سے تعلق رکھنی والی 21 سالہ اقصیٰ مسعود سے بات کیسے کی جائے۔ اقصیٰ نے میٹرک کیا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ آئی ہوئی ان کی سہیلیاں بھی سائن لینگویج یا اشاروں کی زبان کے ذریعے بات چیت کر سکتی تھیں۔اس نجی ادارے میں موجود باقی لوگوں، خود اقصیٰ اور ان کی سہیلیوں نے بات چیت کے لیے گوگل ٹرانسلیٹر، رومن انگلش، اور اردو میں سوال لکھ کر دیے لیکن کوئی بات نہیں بن پائی۔
اقصیٰ نے کسی نہ کسی طریقے سے یہ کہا کہ آپ مجھے انگریزی میں سوال لکھ کر دیں تو میں اس کا جواب دے سکوں گی۔ انگریزی میں سوال لکھ کر دینے کے باوجود کوئی بات نہیں بن پائی۔آخر تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم نے ایک مترجم کو ویڈیو کال ملائی۔میں انھیں اردو میں سوال بتاتا، پھر ویڈیو کال اقصیٰ کی طرف کر کے وہ سائن لینگویج یعنی اشاروں کی زبان میں ان کو سوال بتاتے۔ اقصیٰ سوال کا جواب دیتیں اور پھر مترجم مجھے بتاتے کہ انھوں نے کیا کہا ہے اور یوں یہ انٹرویو ممکن ہوا۔’ہر علاقے کی اپنی سائن لینگویج‘ پاکستان میں سائن لینگویج مختلف علاقوں میں مختلف انداز میں استعمال کی جاتی ہے جس میں برٹش سائن لینگویج، امریکن سائن لینگوئج سمیت گاؤں اور شہروں کی سطح پر لوگوں کی اپنی ایجاد کردہ اشاروں کی زبان بھی شامل ہے۔
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں یکساں سائن لینگویج موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے پشاور میں سائن لینگویج سمجھنے والا کوئی شخص کراچی میں سائن لینگویج سمجھنے والے کی کچھ باتیں یا شاید پوری بات ہی نہ سمجھ سکتا ہو۔خصوصی افراد کے لیے استعمال کی جانے والی بولی یا سائن لینگوئج کے ماہر اور سپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عاطف شیخ کا کہنا ہے کہ سائن لینگوئج پاکستان میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے قوت سماعت سے محروم لوگوں کی ایک بڑی تعداد مرکزی دھارے سے باہر ہو رہی ہے۔’اگر ہمارے پاس ایک معیاری سائن لینگویج نہیں ہوگی تو جو قوت سماعت سے محروم بچے ہیں وہ سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ سپیچ تھیراپی سے ان بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں جو تھوڑا بہت بولنا جانتے ہوں یا جن کی قوت سماعت تھوڑی بہت ہے لیکن جو بالکل قوت سماعت سے محروم ہیں ان کو اشاروں کی زبان کے بغیر پڑھایا نہیں جا سکتا اور جب وہ تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو ان کے لیے روزگار کے مواقع بھی کم ہو جائیں گے،
ان کی زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی کم ہوتے جائیں گے۔‘پاکستان میں رائج سائن لینگویج یا اشاروں کی زبان میں قوت سماعت سے محروم لوگ اپنے شہر یا علاقے میں تو بات کر لیتے ہیں لیکن کسی اور شہر یا علاقے میں جاتے وقت ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس بارے میں عاطف شیخ کا کہنا ہے کہ ’اس وقت جو سائن لینگوئج پاکستان میں استعمال ہو رہی ہے وہ بہت زیادہ دیسی ہے، یعنی ہر گاؤں، ہر دیہات، ہر علاقے میں اپنی ضرورت کے حساب سے اشارے بنا لیتے ہیں۔‘’والدین اپنے بچوں کے ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق اشارے بنا لیتے ہیں اور اسی میں ان سے بات چیت کرتے ہیں اور وہ بچے جب باہرنکل کر کہیں بات کرنا بھی چاہیں تو وہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی ایک سٹینڈرڈ سائن لینگویج نہیں ہوتی۔’
مثال کے طور پر پنجاب میں کوئی بندہ اشارے استعمال کرتا ہے وہ بہت زیادہ دیسی اور مقامی ضروریات کے مطابق ہوتی ہیں۔ جب وہی قوت سماعت سے محروم فرد خیبر پختونخواہ جائے گا یا سندھ جائے گا تو ایک پاکستانی ہوتے ہوئے بھی اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ، شہریوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے قاصر ہے حالانکہ وہ سب اشاروں کی زبان یا سائن لینگویج استعمال کرتے ہیں۔‘پاکستان میں قوتِ گویائی سے محروم افراد کے ڈائریکٹوریٹ کی انچارج اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ملک میں معیاری سائن لینگویج نہ ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر کہا کہ علاقائی سائن لینگویج مرکزی سائن لینگویج سے زیادہ ضروری ہے۔’میرے خیال سے جو سینٹر ہمارا ہے وہاں پر ہم سائن لینگویج کو نہ صرف ایک زبان میں بلکہ علاقائی زبانوں میں بھی مرتب کر رہے ہیں کیونکہ جس بچے کو انگریزی یا اردو نہیں آتی تو وہ اپنے آپ کو معذور سمجھے گا۔ تو ضرورت ہے کہ ایک سے زیادہ زبانیں فراہم کی جائیں حتیٰ کہ بریل میں بھی۔‘خرم یاسین سپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام (سٹیپ) اسلام آباد میں سنہ 2007 سے بطور سائن لینگویج ٹرینر کے عہدے پر فائز ہیں۔ خرم یاسین پیدائشی طور پر قوت سماعت سے محروم ہیں۔
ان سے ہم نے سائن لینگویج ایک نہ ہونے سے پیدا ہونے والے مشکلات کے حوالے سے بات کی:ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں کوئی مناسب سائن لینگوئج نہیں ہے۔ میں جب کراچی جاتا ہوں تو وہاں کی ڈیف کمیونٹی کو میری کچھ باتیں سمجھ آتی ہیں کچھ نہیں آتیں، میں جب پشاور جاتا ہوں تو وہاں مختلف، اور جب بلوچستان جاتا ہوں تو وہاں سائن لینگویج اور بھی مختلف ہے۔ ہر جگہ کی اپنی اپنی سائن لینگویج ہے جس کی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘خرم نے کہا کہ اس کے مقابلے میں جب وہ امریکہ گئے تو انھیں اتنی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔‘میں جب امریکہ گیا تھا تو وہاں پر امریکی سائن لینگوئج ایک تھی جو کہ ہر کسی کو سمجھ آتی تھی۔
پاکستان میں یہاں ہر علاقے کی اپنی سائن لینگوئج ہے جس سے بہت مسئلے ہوتے ہیں۔‘اگرچہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اپنی اپنی معیاری لینگویج موجود ہے جیسے کہ امریکہ میں امریکی سائن لینگویج، برطانیہ میں برطانوی سائن لینگویج، جاپان میں جاپانی سائن لینگویج وغیرہ لیکن پاکستان میں ایک سائن لینگویج کیسے ممکن ہے، اس بارے میں عاطف شیخ نے بتایا کہ ’پاکستان کے لیے بھی نیشنل سائن لینگویج بنانا بالکل ممکن ہے۔‘‘
حکومتی سطح پر نیشنل سائن لینگویج کے لیے جو کوششیں کی گئی ہیں ان کو اس لیے یکجا نہیں کیا جا سکا کیونکہ اس میں قوت سماعت سے محروم لوگوں کی شمولیت ہی نہیں تھی۔ اس کا حل ایک ریسرچ، تفصیلی مطالعہ اور باہمی مشورہ کرنا ہے۔’یعنی پاکستان کے دور دراز علاقوں سے قوتِ سماعت سے محروم لوگوں کو بلایا جائے اور ان اداروں کو بلایا جائے جو سائن لینگوئج پر کام کر رہے ہیں اور وہ ادارے جو ان افراد کو تعلیم دے رہے ہیں انھیں ایک جگہ اکھٹا کر کے ایک ایسی جامع ریسرچ کی جائے۔
جس کے نتیجے میں ہم ایک سٹینڈرڈ سائن لینگویج بنا سکتے ہیں۔‘اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک اردو بولنے والا پاکستانی، بلوچی، پنجابی، سندھی، پشتو وغیرہ نہ بول سکتا ہو تو اس صورتحال میں ایک سائن لینگویج کی ضرورت کیوں ہے؟اس حوالے سے عاطف شیخ نے کا کہنا ہے کہ ‘قوت سماعت سے محروم لوگوں کے لیے ایک سائن لینگویج کا ہونا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ ان کی بات چیت کرنے کا واحد طریقہ ہے۔‘