مرد اہلکار کسی خاتون کو حراست میں نہیں رکھے گا سینیٹ

021220201

سینیٹ میں بل پیشبل پیش کرنے والی پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمٰن نے مطالبہ کیا کہ دوران حراست تشدد پر دس لاکھ روپے تک جرمانہ اور تین سے دس سال تک سزا دی جائے جبکہ حراست کے دوران تشدد کی تحقیقاتی رپورٹ بھی 14 روز میں آ جانی چاہیے۔ سینیٹ میں پیش کیے گئے بل کے مطابق کوئی مرد اہلکار کسی خاتون کو حراست میں نہیں رکھے گا بلکہ خاتون صرف خاتون اہلکار کی حراست میں رہے گی۔

پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں دوران حراست پولیس کے تشدد کے باعث قیدیوں کی ہلاکت کے تدارک اور کنٹرول کا بل پیش کردیا گیا۔یہ بل پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کی جانب سے پیش کیا گیا، جن کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ سالوں میں پولیس کی حراست میں تشدد سے اموات کے 52 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ پولیس کے نجی ٹارچر سیلوں کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے۔شیری رحمٰن نے مطالبہ کیا کہ دوران حراست تشدد پر دس لاکھ روپے تک جرمانہ اور تین سے دس سال تک سزا دی جائے جبکہ حراست کے دوران تشدد کی تحقیقاتی رپورٹ بھی 14 روز میں آ جانی چاہیے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ انہیں اس بل پر کوئی اعتراض نہیں۔

دوران حراست تشدد کے حوالے سے حکومتی بل وزارت قانون میں پہلے سے موجود ہے اور سینیٹ میں پیش کردہ اس بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے۔ بل میں خاص کیا ہے؟

– دوران حراست ملزم پر تشدد پر تین سے دس سال سزا ہو گی اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔ – اگر کوئی تشدد ہوتا ہوا دیکھے اور اس کو نہ روکے تو سرکاری ملازم کو تین سال تک سزا اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔-

دوران حراست تشدد سے ہلاکت پر عمر قید کی سزا اور 30 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔ – دوران حراست جنسی تشدد (زنا بالجبر) پر عمر قید اور 30 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔-

دوران حراست موت یا جنسی تشدد ہونے پر اسے نہ روکنے کے ذمہ دار سرکاری اہلکار (وہ ملازم جس کی ڈیوٹی تشدد روکنا ہے) کو سات سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔-

کوئی مرد اہلکار کسی خاتون کو حراست میں نہیں رکھے گا بلکہ خاتون صرف خاتون اہلکار کی حراست میں رہے گی۔ – ملزم کے بارے میں گواہی حاصل کرنے کے لیے کسی شخص کو نظر بند نہیں کیا جائے گا۔-

تشدد کے ذریعے حاصل کیا گیا بیان نامنظور ہو گا اور گواہی تسلیم نہیں کی جائے گی۔-

تشدد کی شکایت کرنے والے شخص کا بیان عدالت ریکارڈ کرے گی جبکہ جس شخص پر تشدد ہوا اس کا طبی اور نفسیاتی معائنہ کرایا جائے گا اور متعلقہ ادارے تشدد کی تحقیقات کرکے 15 دن کے اندر رپورٹ ارسال کریں گے۔-

دوران حراست تشدد کی بدنیتی پر مبنی شکایت کرنے والے کو ایک سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔-

دوران حراست تشدد کے کیس پر سزا کے خلاف اپیل 30 دن میں دائر ہو گی۔

پولیس کی حراست میں صلاح الدین کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں وہ کہتے نظر آئے تھے: ’ایک سوال پوچھوں، مارو گے تو نہیں، آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟‘ اس ویڈیو نے پولیس تشدد کے پول کھول دیے تھے۔

جسٹس پاکستان پروجیکٹ (جے پی پی) کی سربراہ سارہ بلال نے اس حوالے سے کہا کہ ’وہ اس معاملے پر 2010 سے کام کر رہے ہیں کہ حراست کے دوران تشدد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آئین میں تشدد کی ممانعت کی گئی ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔‘انہوں نے کہا کہ ’2015 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بل پاس کریں گے لیکن کچھ نہیں ہوا اور اب دس سال بعد یہ بل پیپلز پارٹی نے پیش کیا ہے جو کہ بہت خوش آئند ہے۔‘

سارہ بلال نے بتایا کہ جسٹس پاکستان پروجیکٹ نے اس حوالے سے مکمل رپورٹ تشکیل دی تھی جس کے مطابق پولیس حراست میں سب سے کم عمر 12 سالہ بچے پر بھی تشدد ہوا اور 90 سالہ بزرگ بھی پولیس تشدد سے محفوظ نہ رہ سکے۔