اگر بنگالیوں کو انڈین شہریت ملنے لگے تو کیا بنگلہ دیش خالی ہو جائے گا؟
انڈین مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے اتوار کے روز یہ بیان دیا کہ اگربنگلہ دیش کے لوگوں کو انڈین شہریت ملنے لگے تو آدھا بنگلہ دیش خالی ہو جائے گا۔ اتنا ہی نہیں ریڈی نے تلنگانا کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کو چیلنج کیا کہ وہ یہ ثابت کریں کہ شہریت کا ترمیمی قانون کس طری انڈین شہریوں کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا ’اگر انڈیا بنگلہ دیش کے لوگوں کو شہریت دینے لگے تو آدھا بنگلہ دیش خالی ہو جائے گا پھر ان کی ذمہ داری کون لے گا۔‘ دوسری طرف بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدل میمن کا کہنا ہے کہ انڈیا کے شہری بنگلہ دیش کی بہتر صورتحال کی وجہ سے وہاں آ رہے ہیں۔
بنگلہ دیش بھی انڈیا کے اس قانون کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ کچھ روز پہلے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے کہا تھا کہ سی اے اے اور این آر سی انڈیا کا اندورنی معاملہ ہے لیکن ان کی کوئی ضرورت یا مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔
بنگلہ دیش کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے.اس سے پہلے شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدل میمن اور وزیر داخلہ اسد الزماں نے اپنے انڈیا کے دورے منسوخ کر دیے تھے۔
عبدل میمن نے انڈیا کے وزیر داخلہ امِت شاہ کے اس بیان کی مخالفت کی تھی جس میں انھوں نے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی بات کی تھی۔
اچھی زندگی کے لیے انڈیا سے بنگلہ دیش جا رہے ہیں لوگ عبدل میمن کا کہنا تھا کہ امت شاہ جھوٹ بول رہے ہیں بنگلہ دیش میں جس طرح لوگوں میں بھائی چارہ ہے اس کی مثال دنیا کے بہت ہی کم ملکوں میں ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے یہاں کوئی اقلیت نہیں ہے ہم سب برابر ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ انڈیا ایسا کچھ نہیں کرے گا جس سے دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات متاثر ہوں۔موجودہ دور میں بنگلہ دیش اپنی معاشی تقری کی عبارت لکھ رہا ہے.انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انڈین شہری بنگلہ دیش میں مضبوط ہوتی معیشت اور غریبوں کے لیے مفت کھانے کی سہولت کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا تھا کہ لوگ بنگلہ دیش اس لیے آ رہے ہیں کیونکہ ہماری معیشت اور حالات بہت اچھے ہیں۔ جو لوگ یہاں آ رہے ہیں انھیں ملازمتیں بھی مل رہی ہیں اور غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے والوں کو مفت کھانا بھی ملتا ہے۔میمن کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی معیشت انڈیاکے مقابلے بہتر ہے ۔ انڈیا میں لوگوں کو روز گار نہیں مل رہا اس لیے وہ بنگلہ دیش آ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کچھ دلال انڈیا کے غریب شہریوں کو یہ لالچ دیتے ہیں کہ انڈیا کے لوگوں کو بھی بنگلہ دیش میں مفت کھانا ملتا ہے۔بنگلہ دیش سے ہونے والی دراندازی کے دعوں اور سیاسی بیان بازیوں کے درمیان یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں بنگلہ دیش اپنی معاشی ترقی کی عبارت لکھ رہا ہے۔نگلہ دیش اپنے آٹو سیکٹر اور انڈسٹری سیکٹر کے بل بوتے پر آٹھ فیصد کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہےکیا بنگلہ دیش انڈیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے.انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات ہمیشہ سے ہی دوستانہ رہے ہیں لیکن جس طرح سے بنگلہ دیش کی معیشت بڑھ رہی ہے تو کیا یہ دونوں ملک اب ایک دوسرے کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے ہیں اور کیا بنگلہ دیش انڈیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔انڈیا کی معیشت میں اضافے کی شرح کم ہو کر پانچ فیصد رہ گئی ہے
انڈیا میں آٹو موبائل، ریئل سٹیٹ اور سروس سیکٹر خراب حالت میں ہے۔ جس کی وجہ سے معیشت کی رفتار دھیمی ہو گئی ہے۔ وہیں بنگلہ دیش اپنے آٹو سیکٹر اور انڈسٹری سیکٹر کے بل بوتے پر آٹھ فیصد کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کی معیشت ابھی 180 ارب ڈالر سے بڑھ کر 322 ارب ڈالر کی ہو جائے گی۔ انڈیا کی معیشت دو عشاریہ سات کھرب ڈالر کی ہے اور انڈیا نے اگلے پانچ سال میں اسے پانچ کھرب ڈالر کی معیشت بنانے کا ہدف رکھا ہے۔لیکن اب بنگلہ دیش نے اُن معاشی شعبوں میں دستک دینی شروع کر دی ہے جہاں انڈیا کا دبدبہ تھا۔منیو فیکچرِنگ سیکٹر میں بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
کپڑے کی صنعت میں بنگلہ دیش چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔پچھلے دس سال میں بنگلہ دیش کی معیشت اوسط چھ فیصد سالانہ کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔2018 میں یہ رفتار سات عشاریہ 86 تک پہنچ گئی تھی۔1974 میں خوفناک قحط کے بعد سولہ عشاریہ 6 کروڑ کی آبادی والا یہ ملک معدنیات کی پیداوار کے معاملے میں خود انحصار بن چکا تھا۔ پچھلے سال بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی ایک ہزار سات سو پچاس تک پہنچ گئی تھی۔ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں بڑی تعداد میں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن عالمی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق یومیہ سوا ڈالر میں زندگی گذارنے والوں کی تعداد انیس فیصد سے کم ہو کر نو فیصد رہ گئی ہے۔