امپوسٹر سینڈروم: لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ میں ’جعل ساز‘ ہوں تو کیا ہو گا؟ 

آپ کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ آپ ایک دن پکڑے جائیں گے اور پھر لوگ کہیں گے کہ آپ تو بالکل جعلی ثابت ہوئے.یہ ایک ایسی چیز ہے جو اتنے لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ معروف امریکی ادیبہ، شاعرہ اور سماجی کارکن مایا اینجلو سے لیکر مایہ ناز اداکار ٹام ہینکس، سابق امریکی خاتون اول مشل اوبامہ سے لیکر ہسپانوی ماڈل اور اداکارہ پنیپلی کروز تک، سب ہی شکایت کرتے آئے ہیں کہ وہ اس کا شکار رہے ہیں۔دوسری جانب اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ ساری شخصیات اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ترین لوگوں میں شمار ہوتی ہیں اور اتنہائی مشہور بھی ہیں۔لیکن یہ تمام شخصیات اس چیز کے خلاف کے جد وجہد کرتی رہی ہیں جسے عرف عام میں ’امپوسٹر سینڈوم‘ کہا جاتا ہے۔

یہ اصطلاح پہلی مرتبہ سنہ 1970 کے عشرے میں منظر عام پر آئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ ہم میں سے 70 فیصد لوگ زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر اس ذہنی مسئلے کا شکار ہو جاتے ہیں۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف سینٹرل لنکاشائر کے شعبۂ نفسیات سے منسلک ڈاکٹر سینڈی مین ’امپوسٹر سینڈروم‘ کے بارے میں کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اس میں تین چیزیں ہوتی ہیں۔

پہلی یہ کہ آپ کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے خیال میں آپ بہت زیادہ صلاحیتوں کے مالک اور بہت ماہر شخص ہیں لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اصل میں اتنے ماہر نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔امریکہ کی سابق خاتون اول مشل اوبامہ نے امپوسٹر سینڈروم میں مبتلا ہونے کے بارے میں کھل کے بات کی دوسری علامت یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ آپ ایک دن پکڑے جائیں گے اور پھر لوگ کہیں کہ آپ تو بالکل جعلی ثابت ہوئے۔اور اس کی تیسری علامت یہ ہے کہ اگر آپ کو کامیابی ملتی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ آپ کی اپنی محنت کا پھل ہے، آپ اس کا سہرہ اپنی قابلیت اور مہارت کے سر باندھنے کی بجائے اس کا ذمہ دار بھی قسمت یا دوسرے لوگوں کو سمجھتے ہیں۔

اس کیفیت سے گزرنے والی مشہور شخصیاتخود پر اعتماد نہ کرنے کا شکار صرف ہم جیسے عام لوگ نہیں ہوتے بلکہ نہایت مشہور لوگ بھی ہو جاتے ہیں۔مثلاّ عظیم سائسندان ایلبرٹ آئن سٹائن کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے ایک دوست کو بتایا تھا کہ جب لوگ ان کی اتنی زیادہ تعریفیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے تو فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے، تو وہ پریشان ہو جاتے تھے۔ان کا کہنا تھا ’میرے کام کو جب اس قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو بہت بے چینی ہونے لگتی ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اصل میں، میں کوئی بہت بڑا دھوکے باز تو نہیں۔‘

اسی طرح دو مرتبہ آسکر ایوراڈ جیتنے والے اور 70 سے زیادہ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے ٹام ہینکس نے سنہ 2016 میں بتایا تھا کہ وہ اپنے پورے فلمی کیریئر کے دوران یہی کوشش کرتے رہے کہ اپنی صلاحیتوں پر شک کرنا چھوڑ دیں۔ایک ریڈیو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم زندگی میں کیا کچھ حاصل کر چکے ہیں، ایک وقت آتا ہے کہ آپ سوچنے لگتے ہیں کہ آخر میں اس مقام تک پہنچا کیسے؟ جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ اصل میں ساری زندگی انھیں دھوکہ دیتا رہا ہوں تو وہ میرے ہاتھ سے سب کچھ واپس لے لیں گے۔‘جعل ساز ہونے کی سوچ کی وجہ سے کچھ لوگ اپنے پیشے میں آگے نہیں جا پاتے

مشل اوبامہ کا کہنا تھا کہ انھیں بداعتمادی کی اس سوچ نے’ اتنا اپاہج کر دیا تھا کہ اس سے ان کی شخصیت اور اپنی ذات پر اعتبار اٹھ گیا تھا۔‘’کسی حد تک اب بھی مجھ میں یہ (امپوسٹر سینڈرم) پایا جاتا ہے۔ یہ کبھی نہیں جاتا، یہ احساس کبھی نہیں جاتا کہ آیا دنیا کو چاہیے کہ مجھے اہمیت دے، مجھے کوئی چیز سمجھے۔ (اپنی نظر میں) میں صرف مشل اوبامہ ہوں، امریکہ کے جنوبی (غریب) علاقے کی وہ چھوٹی سے لڑکی جو سرکاری سکول جایا کرتی تھی۔‘خود کو تباہ کر لینااپنی ذات میں بہتری لانے کے لیے اپنی صلاحیتوں پر تھوڑا بہت شک کرنا اچھا ہوتا ہے لیکن خیال رہے کہ اس قسم کی خاکساری بہت جلد خود آپ کی اپنی تباہی میں بھی بدل سکتی ہے۔

ڈاکٹر مین کہتی ہیں کہ نفسیاتوں مشوروں کے لیے ان کے پاس کئی مرتبہ ایسے لوگ بھی آئے جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے لیکن وہ بھی امپوسٹر سینڈروم کا شکار تھے۔ بظاہر یہ لوگ جعلی یا نقلی نہیں تھے لیکن انھیں خوف تھا کہ ایک دن لوگ انھیں دھوکے باز کہیں گے۔امپوسٹر سینڈروم میں مبتلا کئی لوگ اپی پیشہ ورانہ حیثیت میں ترقی کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنی صلاحیت یا حیثیت سے بڑے عہدے پر پہنچ چکے ہیں۔ماہرِنفسیات ہنی لینگکاسٹر جیمز کہتی ہیں ’امپوسٹر سینڈروم میں مبتلا ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس خوف میں پڑ جاتے ہیں کہ کسی کو ہمارے بارے میں پتہ چل جائے گا یا یہ کہ ہم لوگوں کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکیں گے۔‘’اور آگر آپ اس سوچ کو خود پر سوار ہونے دے دیتے ہیں تو یہ آپ کو ایسی چیزیں حاصل کرنے سے روک سکتی ہیں جو آپ حقیقت میں کر سکتے ہیں۔‘اپنی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا مشکل ہو سکتا ہے لیکن امپوسٹر سینڈروم پر قابو پانے کے لیے یہ ایک ضروری چیز ہےایک اور ماہر نفسیات ایم ویلس کے خیال میں یہ سوچ آپ کے رشتوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔’

شاید ہم سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم اتنے خوش قسمت کیسے ہو گئے یا یہ کہ اگر کسی کو ’ہماری اصلیت‘ کا پتہ چل گیا تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچے گا۔ ہمیں یہ پریشانی ہو سکتی ہے کہ ہم کہیں اپنے جیون ساتھی کو مایوس نہ کر دیں یا ان کی بے عزتی کا سبب نہ بن جائیں۔ یا یہ کہ ہم اپنے ماضی کے رشتے کی توقعات پر بھی پورے نہیں اتر سکے۔ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں ہم کسی ایسے رشتے میں رہے ہوں جو بہت اچھا نہیں تھا، اور اب ہمیں یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ ہم شاید اپنے موجودہ رشتے کے قابل بھی نہیں ہیں۔‘ہم امپوسٹر سینڈروم پر قابو کیسے پا سکتے ہیں؟اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بھی امپوسٹر سینڈروم میں مبتلا ہیں تو آپ اس سے نکلنے کے لیے کچھ قدم اٹھا سکتے ہیں۔

یہ بات یاد رکھیں کہ آپ اس میں اکیلے نہیں ہیں۔ اپنے دوستوں اور گھر والوں سے بات کیجیے۔ ہو سکتا ہے آپ کو محسوس ہو کہ کتنے زیادہ لوگ اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔اپنی کامیابیوں اور صلاحیتوں کی فہرست بنایے۔

ڈاکٹر مین کہتی ہیں کہ ایک اچھی ترکیب یہ ہو سکتی ہے کہ آپ ہر اس چیز کو سو میں سے کچھ نمبر دیں جس نے آپ کے خیال میں آپ کی کامیابی میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔

’ہو سکتا غلطی سے آپ تمام نمبر اپنی خوش قسمتی کو ہی دے دیں لیکن جب آپ کاغذ قلم لیکر بیٹھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ یہ قسمت والی بات کتنی احمقانہ تھی۔لوگوں کی رائے لیجیے۔ جب لوگ آپ کو آپ کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں تو اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ آپ اس بات پر یقین کر لیں گے۔اپنی ’ناکامی‘ کو تسلیم کیجیے کیونکہ امپوسٹر سینڈروم میں مبتلا لوگوں کے لیے بہترین کام سے کم کسی چیز کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر مینن کہتی ہیں ’ہر وقت بہترین کارکردگی دکھانا ضروری نہیں ہوتا تاہم اس کے باوجود آپ اچھا خاصا کام کر سکتے ہیں۔‘