مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے امیدواروں کی فہرست شائع کرنے کا حکم
انڈیا کی عدالت عظمی نے سبھی سیاسی پارٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دو دن کے اندر اپنے ان سبھی امیدواروں کے ناموں کی فہرست شائع کریں جن کا مجرمانہ ریکارڈ ہے، اوریہ بھی بتائیں کہ پارٹیوں نے انھیں ہی کیوں اپنا امیدوار منتخب کیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ جس طریقہ سے ’مجرمانہ امیدواروں‘ کی تعداد ’خطرناک حد‘ تک بڑھ گئی اس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
سبھی سیاسی پارٹیوں کو اپنے ان امیدواروں کی فہرست اپنی سرکاری ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر شائع کرنے کے لیے 48 گھنٹوں کا وقت دیا گیا ہے۔2019 میں جو ارکان پارلیمان منتخب ہوئے تھے ان میں مجرمانہ کردار والے امیدوراوں کی تعداد 48 فیصد تھی جو کہ سنہ 2014 میں 34 فیصد تھی۔یہ اعداد و شمار ایک نگراں ادارے اے ڈی آر یعنی ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی جانب سے جمع کیے گئے ہیں۔اور اس تعداد میں سال در سال اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 2004 میں یہ تعداد 24 فی صد تھی، جو 2009 میں 30 فیصد ہوگئی تھی۔ان میں سے بعض پر یا تو معمولی الزامات ہیں یا سیاست سے متاثر ہیں لیکن ایسے ارکان پارلیمان بھی ہیں جن پر چوری، سرکاری افسروں پر حملے، قتل، انکوانٹر اور یہاں تک کے ریپ کے الزامات ہیں۔
عدالت عظمی نے کہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے ’صاف ستھرے‘ کردار والے امیدواروں کو چھوڑ کر مجرمانہ ریکارڈ والے امیدواروں کو ٹکٹ دیے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ دینے کے لیے یہ صلاحیت کافی نہیں ہے کہ وہ اپنی سیٹ سے جیت دلا سکتا ہے۔عدالت کے حکم کے مطابق سبھی سیاسی پارٹیوں کو یہ معلومات انتخابی کمیشن کو بھی بھیجنی ہوگی اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے۔
پارٹیاں مشکوک کردار والے امیدواروں کو انتخابی میدان میں کیوں اتارتی ہیں؟سیاسی تجزیہ کار ملن ویشنو کے مطابق ’سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مجرمانہ ریکارڈ والے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس بڑی مقدار میں نقد رقم ہوتی ہے۔‘جس طرح سے انڈیا میں سال در سال انتخابی مہم پر بے حد رقم خرچ کی جانے لگی اور پارٹیوں اور امیدواروں کی فنڈنگ کے بارے میں مکمل معلومات کی کمی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ‘ان امیدواروں کو ترجیج دیتی ہیں جو خود انتخابات کا خرچ اٹھا سکیں اور پارٹی کی بھی مالی طور پر مدد کریں۔ ان میں سے بیشتر امیدوار مجرمانہ کردار والے ہوتے ہیں۔
انڈیا جیسی ’تھری ٹیئر‘ یعنی تین درجوں میں تقیسم جمہوریت میں تیس لاکھ سیاسی پوزیشن بھرنی ہوتی ہیں جن کے لیے کم سے کم سے تین بڑے انتخابات ہوتے ہیں( قومی، ریاستی اور مقامی) اور اس کے لیے بڑی تعداد میں ذرائع درکار ہوتے ہیں اور نقد رقم اس کا ایک بڑا پہلو ہے۔انڈیا میں آج بھی بعض سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جو بڑے خاندانوں یا بااثر شخصیات کے نام پر چل رہی ہیں اور وہ انہیں ذاتی جاگیر کے طرح چلاتے ہیں۔
ان سیاسی پارٹیوں میں اندرونی جمہوریت کا فقدان ہے اور ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں جن سے ان امیدواروں کو ٹکٹ ملنے میں مدد ملتی ہیں جن کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ملن ویشنو کا مزید کہنا تھا ’ان سیاسی پارٹیوں میں ان اسباب کے باعث ایسا ماحول پیدا ہوگیا کہ یہ امیدوار اپنے آپ کو رابن ہڈ یا غریبوں کے حامی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔‘