کشمیر ترکی کیلیے وہی ہے جو پاکستان کیلیے ہے: طیب اردوان
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی معیشت کا جنازہ نکال دیا: شاہ محمود قریشیمقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا: چیئرمین امور خارجہ کمیٹی امریکا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلببھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ترک صدر کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ترجمان بھارتی وزارت خارجہ نے ترک صدر کے بیان کو مسترد کرتے ہوئےکہا کہ مقبوضہ کشمیر کا علاقہ بھارت کا اٹوٹ اور ناقابل تقسیم حصہ ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ہم ترک قیادت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دے اور اس معاملے سمیت پاکستان کی طرف سے بھارت اور خطے میں دہشتگردی کے ابھرتے ہوئے بڑے خطرے کے حقائق کو مکمل طور پر سمجھے۔ترک صدر طیب اردوان نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ کشمیر ترکی کے لیے ایسا ہی ہے جیسا پاکستان کے لیے ہے۔ترک صدر کا مزید کہنا تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں سیاسی دباؤ کے باوجود پاکستان کی بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔آرٹیکل 370 کیا ہے؟بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے،
ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔مقبوضہ وادی میں کئی ماہ سے کرفیو نافذ ہے جس کے باعث اشیائے خوردونوش کی شدید قلت ہے جب کہ مریضوں کے لیے ادویات بھی ناپید ہوچکی ہیں، ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔