پاکستان میں شعبہ نرسنگ کی جدت ساز باہمت خاتون ،، مسز کوثر پروین
پنجاب شعبہ نرسنگ میں انہیں فلورنس نائٹ انگیل ثانی کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ شعبہ نرسنگ میں معیا ر تعلیم کو بلند کر نا اور نرسنگ کو جدید دُنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر نا میرا خواب ہے اور اِس خواب کی تعبیر تک کوشش کرتی رہوں گی۔ مسز کوثر پروین ڈائریکٹر جنرل نرسنگ پنجاب
جنگ کریمیا کے اختتام پر ایک فوجی تقریب میں فوجیوں سے کہا گیا کہ وہ کاغذ کی پرچی پر اُس شخصیت کا نام لکھیں جس نے اِس جنگ میں انسانیت کی خدمت کا ایسا کردار اد ا کیا ہے کہ جیسے صدیوں بعد بھی یاد رکھا جائے گا۔ تمام فوجی افسران نے اپنے اپنے کاغذ کی پرچی پر ایک ایک نام لکھا۔ مگر حیرت انگیز طور پر جب تمام کاغذات کو بعد میں دیکھا گیا تو وہ تمام پرچیوں پر ایک ہی نام فلورنس نائٹ انگیل لکھا تھا۔
بارہ مئی 1820کو فلورنس شہر میں پیدا ہونے والی اِس خاتون کو جدید نرسنگ کا بانی کہا جاتا ہے۔ اُس دور میں نرسنگ کا شعبہ اتنا مہذب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اُن دنوں نرس کا مطلب باقابل بیان الفاظ پر مشتمل تھا۔ مگر فلورنس نائٹ انگیل نے جوکہ ایک نواب کی بیٹی تھی ، اُس نے اپنی فطرت دکھی انسانیت کی خدمت کی بناپر اِس شعبے کا انتخاب کیا اور اس شعبے کوایسی عزت بخشی کہ آج دُنیا کے تمام مہذب ممالک میں نرسنگ سے وابستہ افراد (میل و فی میل ) کو انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں بھاری معاوضہ (تنخواہ ) فی گھنٹہ کے حساب سے ادا کیا جاتا ہے۔
کیونکہ طبی ماہرین نے اِس شعبہ کو زندگی کو محفوظ کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں نرسنگ ابھی تک اپنے ارتقائی منزل میں ہے۔ 1973میں ایک نرسنگ کونسل بنی جسے پاکستان نرسنگ کونسل کہا جاتا ہے۔ اِس کونسل کے قوانین کے مطابق چاروں صوبوں میں نرسنگ ایجوکیشن دی جار ہی ہے اور نرسنگ اداروں کو چلا یا جا رہا ہے۔گذشتہ 41سالوں(1973 تا 2014تک )سے نرسنگ کا شعبہ ترقی کے حوالے سے سست روی کا شکار تھا۔2014میں پہلی بار پنجاب سول سرونٹ ایکٹ 1974میں ترمیم کرتے ہوئے پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نرسنگ رولز 2014بنائے گے اور کسی حد تک شعبہ نرسنگ کو پنجاب میں جدیدیت کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ گذشتہ ایک عشرے میں شعبہ نرسنگ نے ترقی کی جو منازل پاکستان بالخصوص پنجاب میں طے کی ہیں اُس کے پس پردہ کرداروں میں ایک معتبر نام محترمہ مسز کوثر پروین ڈائریکٹر جنرل نرسنگ پنجاب کا ہے ۔پاکستان میں انہیں جدید نرسنگ کی فلورنس نائٹ انگیل ثانی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
محترمہ مسز کوثر پروین کی نرسنگ بائیو گرافی کچھ یوں ہے کہ گذشتہ 41سالوں سے وہ اِس شعبہ سے وابستہ ہیں اُن کی دوتہائی زندگی اِس شعبہ کی خدمت میں گزر گئی ہے۔1978 میں اُنہوں نے سکو ل آف نرسنگ میو ہسپتال لاہور سے جنرل نرسنگ کا ڈپلومہ، 1980میں لیڈی ولنگٹن ہسپتال لاہو رسے مڈائفری کا ڈپلومہ، 1983میں کالج آف نرسنگ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر کراچی سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ آف ایڈمنسٹریشن اینڈ ٹیچنگ ، 1988میں Hillingdon Health Authority UK سے Systematic approcach in Nursing کا سرٹیفکیٹ کورس، 1989میں پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی ، 1991میں پوسٹ گریجویٹ کالج آف نرسنگ لاہور سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ پیڈیاک نرسنگ ، 1992میں سکاٹ لینڈ سے انگلش لینگونج کورس ، 1992میں سکاٹ لینڈ سے Perceptorship Preparation کورس، 1993میں سکاٹ لینڈ سے پوسٹ گریجویٹ نرسنگ منیجمنٹ کورس اور 1994میں سکاٹ لینڈ سے ڈگری آف ماسٹر آف سائنس انٹرنیشنل ہیلتھ حاصل کی۔
عربی ، اُردو، پنجابی ، انگلش اور ہندی زبان پر عبور حاصل ہے۔ متعدد ریسرچ ورک کر چکی ہیں۔چارج نرس سے ڈائریکٹر جنرل نرسنگ پنجاب بننے تک کی ملازمت کے دوران میوہسپتال لاہور، پوسٹ گریجویٹ کالج آف نرسنگ پنجاب لاہور اور آغا خان یونیورسٹی کراچی میں خدمات سرانجام دی چکی ہیں۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے ایم آئی ایس سسٹم ، نرسنگ پلاننگ ، پالیسی ، دیگر امور میں سرگرم رہی ہیں۔سب سے بڑا اعزاز جو انہیں حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے پنجاب میں شعبہ نرسنگ میں معیا ر تعلیم کو بلند کیا ہے اور نرسنگ کو جدید دُنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے چار سالہ بی ایس سی نرسنگ اور دو سالہ پوسٹ آر این نرسنگ پروگرام کے لیے پنجاب میں 12کالج آف نرسنگ کو منظور کرا یا ہے جبکہ 09سکول آف نرسنگ واقع فیصل آباد، لاہور، سرگودھا، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اورراولپنڈی کو اپ گریڈ کرتے ہوئے انہیں کالج آف نرسنگ کا درجہ دلوانے کاپروسس چل رہا ہے۔
محترمہ مسز کوثر پروین ڈائریکٹر جنرل نرسنگ پنجاب نے اپنے شعبہ نرسنگ کے حوالے سے جن معلومات سے آگاہ کیا ۔ اُن کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان وفاقی وژن 2030کے تحت پاکستان نرسنگ کونسل اسلام آباد کے حکم پر اِس وقت ملک بھر میں تین سالہ جنرل نرسنگ ڈپلومہ کورس کو ختم کرکے بی ایس این چار سالہ ڈگری پروگرام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اِسی کی خاطر نرسنگ کالجوں کا قیام ملک بھر میں لایا جا رہا ہے۔گذشتہ برسوں جب سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں ایم ڈی اور ایم ایس ڈگری کے حامل پاکستانی ڈاکٹروں کو کام سے ناقص ایجوکیشن کی بناپر روکا گیا اور انہیں ملازمتوں سے فارغ کیا گیا تو پاکستان طبی نظام کی خامیاں کھل کر سامنے آئیں۔ ڈاکٹروں کے ہمراہ پاکستانی نرسنگ اور پیرامیڈیکس شعبہ جا ت بھی ترقی یافتہ ممالک تو کُجا اکثر ترقی پذیر ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں کیونکہ ابھی تک اِن شعبہ جات کا انحصار ڈپلومہ کورسز پر ہے۔اِن شعبہ جات میں علمی‘تکنیکی ‘ تحقیقی اور عملی کام کا معیاروہ نہیں ہے جسکی ڈیمانڈبین الاقوامی برادری کرتی ہے۔
دیر آیددرست آید کے مصداق،پاکستان نرسنگ کونسل نے اب چاروں صوبوں میں چار سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں تو اس کا نہ صرف حکومت کو خیرمقدم کیاجانا چاہئے بلکہ متعلقہ اداروں کو اس ضمن میں درکار تمام ضروری سہولیات کی فراہمی کو بھی ترجیحی طور پر یقینی بنا نا چاہیے۔ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے 12کالج آف نرسنگ میں 1545طالبات، 38سکول آف نرسنگ میں 6225اور 11پبلک ہیلتھ نرسنگ سکولوں میں 1350طالبات سالانہ داخلہ حاصل کر تی ہیں۔اِس وقت بی ایس سی نرسنگ طالبات کی تعداد 320 اور ایم ایس سی نرسنگ طالبات کی تعداد 64ہے۔ جوکہ انتہائی قلت کی عکاسی ہے۔اِ س وقت 45نرسنگ اداروں میں جنرل نرسنگ سٹوڈنٹس کی تعداد 4806، مڈائفری سٹوڈنٹس کی تعداد 1519مجموعی تعداد 6325ہے جوکہ آئندہ پانچ سالوں میں بڑھ کر 15558ہو جائے گی۔لہذا حکومت پنجاب کو اِس کے لیے ابھی سے تیاری کرنی ہوگی۔
اِس وقت نرسنگ شعبہ میں اپ گریڈیشن کا پروسس چل رہا ہے اُس کو تیزی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا اور پاکستان نرسنگ کونسل اسلام آباد کے بیان کردہ ایجنڈے پر عمل کرناہوگا۔ پنجاب کے 15کالج آف نرسنگ میں پرنسپل سکیل 20، پروفیسر سکیل 20، وائس پرنسپل سکیل 19، ایسوسی ایٹ پروفیسر سکیل19، نرسنگ انسٹرکٹر سکیل 18اور اسسٹنٹ پروفیسر سکیل 18کی آسامیاں فنانس ڈیپارٹمنٹ سے فوری طور پر منظور کرانی ہوگی ۔ٍپنجاب میں میل نرسنگ کا فقدان ہے۔ پنجاب میں دیگر صوبوں کی طرح ہسپتالوں میں بڑھتی مریضوں کی تعداد اور بے روز گار نوجوانوں کو باعزت روز گار دینے کی خاطر حکومت پنجاب کو میل نرسنگ کا آغاز کرناہوگا۔راقم الحروف کی ذاتی تحقیق کے مطابق اگرچہ پاکستان نرسنگ کونسل 1973 سے قائم ہے۔ مگر اِس کونسل پر ایک مافیا کی اجارہ داری کی بناپر اِس نے پاکستان بھر میں شعبہ نرسنگ کو وہ ترقی نہیں کر نے دی جو کہ اب تک ہوجانی چاہیے تھی۔
اِس کونسل پر زیادہ تر ڈاکٹرز اور دیگر نان نرسنگ شعبہ جات کے افراد کا کنٹرول رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں نرسز کو ترقی کے وہ مواقع میسر نہیں آسکے جو بیرون ممالک میں میسر ہیں۔پاکستان میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی نے سب سے پہلے نرسز کو ایک باعزت شناخت دی اور تیماداری کے ساتھ ساتھ نرسز کو بھی انٹرنیشنل لیول کی ایجوکیشن مہیا کی ۔جس کی بناپر لوگوں کی دلچسپی شعبہ نرسنگ کی طرف شروع ہوئی۔
پاکستان میں بے شمار میڈیکل یونیورسٹیز ہیں ۔ مگر شعبہ نرسنگ کے ساتھ یہ ظلم کی انتہا ہے کہ گذشتہ 72سالوں میں ملک بھر کی لاکھوں نرسوں کے لیے پورے پاکستان میں ایک بھی نرسنگ یونیورسٹی حکومت پاکستان یا کسی صوبے کی طرف سے آج تک نہیں بنائی گئی۔پاکستان میں قابل ترین نرسنگ اساتذہ موجو دہیں۔نیز پاکستانی نرسنر اساتذہ کو بیرون ممالک سے جدید ٹریننگ دلو ا کر پوری نرسنگ یونیورسٹی کا نظام بآسانی چلا یا جا سکتا ہے۔ مگر فیصلوں کے دربان پر بیٹھے ڈاکٹرز اور بیورو کریٹس نرسز کو آج بھی اُن کے حقوق اور جائز مقام و عزت نہیں دینا چاہتے۔پاکستان نرسنگ کونسل اسلام آباد15فروری 2017، 16مارچ 2017اور 14مئی 2019کو تمام صوبوں کے متعلقہ س سیکٹریز ہیلتھ اور ڈائریکٹر جنرل نرسنگ کو ہدایات جاری کر چکی ہے کہ ملک بھر کے تمام پبلک ہیلتھ نرسنگ سکولوں کی پرنسپل شپ پر اِس وقت تعینات لیڈی ڈاکٹروں کو فوری طور پر ہٹایا جائے اور اِن سکولوں میں متعلقہ نرسنگ کیڈر کی نرسوں کو پرنسپل تعینات کیا جائے۔
ہر صوبے میں ڈاکٹر ز مافیا اور بیورو کریٹس گذشتہ تین سالوں سے اِس حکم نامہ کی تکمیل کی راہ میں خواہ مخواہ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان نرسنگ کونسل کے فیصلوں کو یونہی ردی کی ٹوکری میں اُٹھا کر پھینکنا ہے تو پھر اِس آئینی کونسل کو ہی بند کر دیا جائے۔ صوبہ پنجاب جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اُس میں محکمہ صحت دو حصوں سپیشلائز ڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ میں تقسیم ہے۔دونوں دیپارٹمنٹ میں نرسز کام کر رہی ہیں جوکہ اِن دونوں ڈیپارٹمنٹ میں سینڈ واچ بن کر رہ گئی ہیں۔ اِس سیٹ اپ سے قبل جب محکمہ صحت پنجاب کا فقط ایک ادارہ ہوتا تھا تو اُس وقت ڈائریکٹوریٹ آف جنرل نرسنگ پنجاب ایک بااختیار ادارہ ہوتا تھا۔
پنجاب بھر کی نرسز کی ملازمت کے بیشتر امور کا انتظامی کنٹرول ڈائریکٹر جنرل نرسنگ پنجاب کو حاصل تھا۔مگر بیورو کریٹس نے پنجاب بھر کی نرسز کی ملازمت کے تمام اختیارات اب اپنے پاس سیکٹریریٹ میں رکھ لیے ہیں۔ ہیلتھ سیکٹریریٹ میں نرسز کو ادنی درجے کا سرکاری ملازم تصور کیا جاتا ہے۔ حتی کہ نرسنگ آفیسر ز کے ساتھ توہین آمیز سلوک کی شکایات عام ہے۔ تمام سروس امور میں نرسز کو بے جا تنگ کیا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پنجاب کے ہیلتھ کئیر سسٹم میں نرسز دیگر طبی شعبہ جات کی نسبت زیادہ ہیں اور اُن کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں مگر اِن نرسوں کو زیر دباؤ رکھ کر اُن کی ترقی کی راہوں کو بند کیا ہوا ہے۔ جنوبی پنجاب میں قائم نرسنگ سکولوں کی حالت زار انتہائی افسوس ناک ہے۔
سکول آف نرسنگ راجن پور میں سکیل 18کی پرنسپل پر کئی سالوں سے سکیل 16کی چارج نرس کو تعینات کر رکھا ہے۔ سکول آف نرسنگ ڈی جی خا ن میں گذشتہ سال سے پرنسپل کی آسامی خالی ہے۔ ایک جونیئر ترین اور ناتجربہ کار نرس کو پرنسپل کا اضافی چارج دے کر پورے ادارہ کو تباہ کیا جا رہا ہے حتی کہ پورے سکول آف نرسنگ ڈیرہ غازی خان میں فقط پانچ عد د آسامیاں (ایک پرنسپل ، دو نرسنگ انسٹرکٹر ، ایک اسسٹنٹ نرسنگ انسٹرکٹر اور ہیڈ کلرک کی آسامی) منظور ہیں جبکہ باقی تمام عملہ جنرل ڈیوٹی پر کام کر رہا ہے۔جبکہ دوسری جانب پانچ آسامیوں کے ساتھ نرسنگ سکول کو کالج آف نرسنگ بنانے کا خواب دکھایا جا رہا ہے جوکہ ناقابل فہم امر ہے۔
اِسی طرح پبلک ہیلتھ نرسنگ سکول ڈیرہ غازی خان،ملتان اور بہاولپور میں پاکستان نرسنگ کونسل کے حکم نامہ کے باوجود تاحال لیڈی ڈاکٹرز پرنسپل تعینات ہیں اور نرسنگ کیڈر کی خواتین کو پرنسپل تعینات نہ کرکے انہیں ترقی کرنے کا موقعہ فراہم نہیں کیا جا رہا اور یہ ناانصافی سپیشلائز ڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے بیورو کریٹس کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو وفاقی وژن 2030کے لیے اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدا ر کو اپنے صوبہ پنجاب کے ہیلتھ سسٹم کو جدید بنانے کے لیے شعبہ نرسنگ پر خصوصی توجہ دینا ہوگی اور پاکستان نرسنگ کونسل جوکہ آئینی ادارہ ہے اُس کے جاری کردہ احکامات پر بیورو کریٹس سے عمل در آمد کرانا ہوگا۔
شعبہ نرسنگ کی نرسز کو نظر انداز کرکے پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں او ر نرسنگ ایجوکیشنل اداروں میں بہتری لا نا مشکل ہی بلکہ ناممکن ہے۔اگر حسب سابق پھر سے ڈائریکٹوریٹ آف جنرل نرسنگ پنجاب کو بااختیارکر دیا جائے تو نرسز جو کہ پنجاب بھر میں خواتین ہیں اُن کو باعزت طریقے سے اپنے ہی شعبہ یعنی کیڈر کی خواتین افسران سے اپنے ملازمت کے مسائل حل کرانے میں بہت آسانی ہو جائے گی ورنہ سیکٹریریٹ میں مر د حضرات جو صنفی امتیاز کا ناروا سلوک کرتے ہیں وہ فی میل سٹاف کے لیے ناقابل برادشت ہے مگر مجبوری ہے اِس کے سوا اُن کے پاس کوئی راہ بھی نہیں۔