ڈیو لِنگو: وہ شحض جو تین سو ملین لوگوں کو نئی زبان دے رہا ہے

022220203

لوئس وان آہن کی پیدائش گوئٹے مالا میں پوئی اور وہ وہیں پلے بڑھےاگر کسی کو شک ہو کہ دوسرے ممالک سے آنے والے لوگوں سے اُس ملک کو فائدہ نہیں ہوتا، تو اسے لوئس وان آہن کی کہانی ضرور سنائیے گا۔جی ہاں وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا سے تعلق رکھنے والے اس 41 سالہ شخص کی کہانی جو سنہ 1996 میں امریکہ چلا گیا تھا جہاں اس نے ریاست نارتھ کیرولائنا کی یونیورسٹی آف ڈیوک سے ریاضی میں ڈگری لینا تھی۔ میتھ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس لڑکے نے پِٹسبرگ میں واقع کارنیگی میلن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس بھی پڑھی۔اس کے بعد لوئس وان آہن نے کمپیوٹر سائنس کے ہی شعبے میں تعلیم و تدریس کا کام جاری رکھا اور کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر بن گئے۔

جس شعبے میں انہوں نے خاص مہارت حاصل کی وہ ہے’ہیومن بیسڈ کمپیوٹیشن‘، یعنی انسان اور کمپیوٹر ملک کر کس طرح اعد وشمار کے پیچیدہ مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔کپمیوٹر سائنس کے اس شعبے میں نئی جہتیں تلاش کرنے پر لوئس کو امریکہ کے مشہور ایوارڈ ’میک آرتھر فیلوشِپ پروگرام‘ کا حقدار قرار دیا گیا۔ عرف عام میں اس فیلو شِپ کو ’جینیئس گرانٹ‘ یا ’غیر معمولی ذہانت‘ پر دیا جانے والا مالی انعام کہا جاتا ہے کیونکہ یہ لوئس جیسے نہایت ذہین افراد کے حصے میں ہی آتا ہے۔لوئس کو کمپیوٹرز کا شوق آٹھ سال کی عمر میں ہی ہو گیا تھا.اور پھر اگلے چند ہی برس میں جب لوئس بتیس 33 برس کے تھے تو وہ اپنی دو کمپنیاں گوگل کو فروخت کر کے کروڑ پتی بن چکے تھے۔

جو ٹیکنالوجی انہوں نے گوگل کو فروخت کی تھی وہ ہم سب آج بھی استعمال کر رہے ہیں، تاہم اس حوالے سے ہم آگے چل کر بات کریں گے۔گھڑی کی سوئیوں کو تیزی سے گھماتے ہوئے ہم آج پر آ جاتے ہیں، جہاں لوئس پِٹسبرگ میں قائم اپنی کپمنی ڈیو لِنگو کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ڈیو لِنگو یا ’دو زبانیں‘ اصل میں ایک کمپیوٹر ایپلیکشن یا ایپ ہے جس سے آج دنیا بھر میں 300 ملین سے زیادہ لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔نرم گو لوئس نے ہمیں بڑی انکساری سے بتایا کہ ان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ خوش قسمتی ہے کہ انہیں بچپن میں ہی انگریزی پڑھائی گئی تھی۔ ان کی مادری زبان ہسپانوی یا سپینِش ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے، جو کہ خود ڈاکٹر ہیں، انہوں نے لوئس پر بچپن سے زور دینا شروع کر دیا تھا کہ وہ انگریزی ضرور سیکھیں۔

لوئس کا تعلق چونکہ مستوط گھرانے سے تھا اس لیے ان کے والدین کو اپنے بیٹے کو دارالحکومت گوئٹے مالا سٹی کے اُس پرائیوٹ سکول میں داخل کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی جہاں انگریزی زبان سکھائی جاتی ہے۔لوئس کہتے ہیں کہ پرائیویٹ سکول میں داخلہ صاف ظاہر ہے ایک ایسی چیز تھی جو گوئٹے مالا میں اکثر بچوں کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق آج بھی گوئٹے مالا کی نصف آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے جبکہ 9 فیصد آبادی انتہائی غریب ہے اور اکثر بچوں کے لیے تعلیم کے مواقع خاصے محدود ہیں۔ڈیو لِنگو پر تصاویر کی مدد سے سوالوں کے جواب تلاش کیے جاتے ہیںڈیو لِنگو بنانے کے پیچھے جو جذبہ کارفرما تھا وہ یہ تھا کہ کسی طرح ایک ایسی ایپ بنائی جائے جس کی مدد سے لوگ گوئٹے مالا میں ہوں یا دنیا کے کسی بھی حصے میں، وہ ایک نئی زبان سیکھ کر نئے معاشی مواقعوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کے لیے آپ کو کسی دوسری زبان پر مکمل پورا عبور حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ آپ اس قابل ہو جائیں کہ آپ کسی حد تک دوسری زبان بھی بول سکیں۔

لوئس کے بقول ’میں کوئی ایسا کام کرنا چاہتا تھا جس سے ہر شخص کو تعلیم تک یکساں دسترس حاصل ہو جائے، اور پھر میں نے اپنی توجہ زبان پر مرکوز کر لی، کیونکہ جب میں گوئٹے مالا میں بڑا ہو رہا تھا تو میں نے دیکھا تھا کہ ہر کوئی انگریزی سیکھنا چاہتا تھا۔‘’ایک ایسے ملک میں جہاں انگریزی نہیں بولی جاتی، اگر آپ وہاں انگریزی بول سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ دوسروں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ پیسے کما سکتے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو انگریزی آتی ہے تو آرام سے دوگنے پیسے بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ چیز تھی جہاں سے مجھے یہ خیال آیا کہ مفت زبان سیکھنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے، یوں ڈیو لِنگو کی بنیاد پڑی۔‘لوئس اور کمپنی کے دوسرے بانی سیورِن ہیکر نے اس ایپ پر کام کا آغاز سنہ 2009 میں کیا تھا۔ اس وقت لوئس کارنیگی میلن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور سیورِن ان کے شاگردوں میں سے ایک۔ لوئس اور سیورِن نے بعد میں لسانیات اور زبان سکھانے کے ماہرین کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا اور پھر سنہ 2012 میں انہوں نے اپنی یہ ایپ لانچ کر دی۔

شروع شروع میں اس ایپ کی مدد سے چند ہی زبانیں سیکھی جا سکتی تھیں جن میں انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی شامل تھی۔جب ہم نے اسے لانچ کیا تو میری خوش قسمتی یہ ہوئی کہ مجھے ’ٹیڈ ٹالک‘ کے فورم پر جا کر بولنے کا موقع مل گیا جسے بیس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے (انٹرنیٹ) پر دیکھا اور یوں ڈیو لِنگو کو ایک بڑی اچھی بنیاد مل گئی۔ لیکن تب سے 2019 تک ہماری ترقی کا سار دارومدار اس پر تھا کہ لوگ ایک دوسرے کو ہمارے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔ اس وقت تک ہم نے اس ایپ کی تشہیر یا اس کی مارکٹنِگ بالکل نہیں کی تھی۔تاہم آج ڈیو لِنگو دنیا کی 28 مختلف زبانوں میں ایک سو سے زیادہ آن لائن کورس کرا رہی ہے۔ اگرچہ آج بھی اس ایپ پر سب سے زیادہ مقبول زبانیں انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی ہیں، لیکن آپ یہاں عربی سے لیکر یوکرینی تک، ہر زبان سیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں کئی ایسی زبانوں کی ترویج پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے جن کے بولنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ اس حوالے سے برطانیہ کے صوبے ویلز کی ویلش زبان، نواجو، گیلِک اور ہوائی میں بولے جانے والی روایتی زبان قابلِ ذکر ہیں۔سکاٹ لینڈ کی اوپن یونیورسٹی سے منسلک ماہر لسانیات ڈاکٹر سلویا وارنیک کہتی ہیں کہ جب انہوں نے گزشتہ برس ڈیو لِنگو کو گیلِک زبان بولنے والے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر ایک نئے کورس کا آغاز کرتے دیکھا تو انہیں بہت خوشی ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ’ڈیو لِنگو کو کچھ حلقوں کی جانب سے اس تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آپ اس ایپ سے زبان پر عبور نہیں حاصل کر سکتے ہیں، لیکن (میرے خیال میں) کوئی زبان سیکھنے کا آغاز کرنے میں یہ ایپ لوگوں کے لیے نہایت مددگار ہو سکتی ہے۔‘’بہت سے لوگوں کے لیے ایک نئی زبان سیکھنا بہت مشکل اور صبر آزما کام ثابت ہو سکتا ہے اور ان کے پاس باقاعدہ ہر ہفتے کسی کلاس میں جانے کا وقت نہیں ہوتا۔ ایسے میں ڈیو لِنگو جیسی ایپس بہت اچھا متبادل ہو سکتی ہیں۔‘

اس وقت ڈیو لِنگو کی سالانہ آمدن نو کروڑ ڈالر ہے، جس میں 1 کروڑ 50 لاکھ اشتہاروں سے آتے ہیں جبکہ باقی سات کروڑ 50 لاکھ کمپنی اپنے ان 2 فیصد صارفین سے کما رہی ہے جو اس کا پریمیئر ورژن استعمال کرتے ہیں جس پر اشہار نہیں آتے۔لوئس کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ڈیو لِنگو کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں اور آپ نسبتاّ امیر شخص ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ہمیں پیسے دیا کریں، کم از کم میں تو یہی سمجھتا ہوں۔ لیکن اگر آپ کا تعلق کسی ترقی پزیر ملک سے ہے آپ کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں تو ہمارا مفت ورژن آپ جیسے لوگوں کے لیے موجود ہے۔ میں تو اس چیز کو یوں ہی دیکھتا ہوں۔‘اب لوئس کی کمپنی میں دو سو ملازمین کام کرتے ہیں، اور لوئس کو امید ہے کہ سنہ 2021 میں کمپنی کے حصص سٹاک مارکیٹ پر دستیاب ہوں گے۔

کہا جاتا ہے کہ اس وقت لوئس کے پاس کمپنی کا ایک چھوٹا مگر تکڑا حصہ ہے، اور اس کے علاوہ کمپنی سے باہر کے کچھ سرمایہ کاروں نے بھی اس میں پیسہ لگا رکھا ہے۔اب بات کرتے ہیں ان دو کپمنیوں یا کاروباروں کی جو کئی برس پہلے لوئس نے گُوگل کے ہاتھ فروخت کر دیے تھے۔ ان میں سے ایک ’ای ایس پی‘ گیم تھی اور دوسری ریکیپچا (Recaptcha )ای ایس پی ( ایکسٹرا سینسری پرسیپشن) اصل میں ایک آن لائن گیم تھی جس میں دو ایسے افراد، جو ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے، وہ کسی تصویر کو بیان کرنے کے لیے لفظوں کا انتخاب کرتے تھے۔ اگر دونوں افراد کسی تصویر کے لیے ایک ہی لفظ چنتے تو دونوں کو ایک ایک پوائنٹ مل جاتا اور پھر انہیں ایک نئی تصویر دکھا کر اس کے لیے لفظ منتخب کرنے کو کہا جاتا۔گذشتہ برسوں کے دوران گوگل اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہا ہے اور اگر ہم گوگل پر کوئی تصویر تلاش کرتے ہیں تو یہی ٹیکنالوجی ہماری مدد کرتی ہے

سابق صدر اوباما لوئس وان آہن اور ان کے کام کے بڑے مداحوں میں سے ہیںجہاں تک ریکیپچا کا تعلق ہے تو یہ ٹیکنالوجی بھی گوگل بڑے پیمانے پر استعمال کر رہا ہے۔ جب گوگل پر موجود کوئی ویب سائیٹ آپ سے ٹیڑھے میڑھے حروف کو پہچان کر انہیں ٹائپ کرنے کو کہتی ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہیں آپ ’روبوٹ یا بوٹ‘ تو نہیں، تو اس کے پیچھے ریکیپچا نامی ٹیکنالوجی ہی استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق روزانہ 20 کروڑ افراد کو کسی نہ کسی ویب سائیٹ پر درست الفاظ ٹائپ کرنے کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، یہ ٹیکنالوجی بھی لوئس نے ہی ایجاد کی تھی۔ ریکیپچا اکیلے لوئس کی ملکیت تھی اور جب سنہ 2009 میں گوگل نے اسے خریدا تھا تو حتمی رقم تو حفیہ رکھی تھی لیکن بتا دیا گیا تھا کہ یہ رقم آٹھ ہندوں پر مشتمل تھی، یعنی 8- فگر کی رقم۔

ایک اور دلچسپ بات جو عام طور پر لوگ نہیں جانتے، وہ یہ ہے کہ آپ کو جو الفاظ ٹائپ کرنے کو کہا جاتا ہے وہ بے تکے نہیں ہوتے، بلکہ ان کے پیچھے بھی ایک ترتیب پوشیدہ ہے۔ یہ الفاظ اصل میں ان پرانی کتب سے لیے جاتے ہیں جنہیں گوگل ڈجیٹائز کر رہا ہے یعنی انہیں ڈجیٹل شکل میں ڈھال رہا ہے، اور سوفٹ ویئر کو ان الفاظ کی گھتی سلجھانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

اگر دس ہزار لوگ ان الفاظ میں سے کسی ایک ہِجّوں پر متفق ہو جاتے ہیں تو گوگل اس لفظ کو درست تسلیم کر لیتا ہے۔ڈیو لِنگو کے دفتر سے ہمارے اٹھنے سے پہلے لوئس کا کہنا تھا کہ انہیں فخر ہے کہ وہ نئی زبانیں سیکھنے میں اتنے زیادہ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ’ہم ہر کسی کو مفت میں زبانیں سکھا رہے ہیں۔‘