افغانستان پاکستان کے درمیان تجارتی ٹرین سروس نو سال بعد بحال

022920206

کراچی سے چلنے والی پہلی کارگو ریل پیر کی شب ازاخیل ڈرائی پورٹ پہنچ گئی، کسٹمز کے ضابطے پورے ہونے کے بعد اس کا سامان ٹرکوں میں منتقل کر کے افغانستان بھیجا جائے گا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے 1965 میں ہونے والے تجارتی معاہدے کے تحت چلائی جانے والی ’گیتا‘ ٹرین نو سال بعد دوبارہ بحال ہو گئی ہے جس کے بعد پہلی کارگو ریل پیر کی شب ازاخیل ڈرائی پورٹ پہنچ گئی، جہاں تمام ضابطے پورے کرنے کے بعد کسٹم حکام اس کےسامان کو ٹرکوں پر لادنے کی اجازت دیں گے۔

کراچی بندرگاہ سے براستہ چمن اور ازاخیل افغانستان تک مال پہنچانے کے اس منصوبے کو اس سال ریلویز کی بہت بڑی اقتصادی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ جس سے ریلوے حکام کے مطابق نہ صرف اس محکمے کی اقتصادی پیداوار میں بہتری آئے گی بلکہ سڑکوں پر رش میں کمی آنے کے ساتھ ساتھ سامان کی بحفاظت منتقلی بھی ہوگی۔ٹرانزٹ ٹرین کی دوبارہ بحالی ایسے حالات میں ممکن ہوئی ہے جہاں ایک طرف پاکستان افغانستان کے درمیان سرحدوں پر باڑ لگا کر سمگلنگ اور دوسرے جرائم کی روک تھام کی کوششیں ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ٹرانسپورٹ نظام کو بہتر بنا کر اس سے آمدن پیداکرنے کا ارادہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں رواں مہینے کی 22 تاریخ کو ٹرانزٹ ٹرین جس کو عرف عام میں گیتا (گڈز ان ٹرانزٹ ٹو افغانستان) کہا جاتا ہے، کو دوبارہ چلانے کا افتتاح کیا گیا۔

محکمہ ریلوے پشاور دفتر کے ڈویژن ٹرانسپورٹ آفیسر طاہر مروت نے بتایا کہ فی الحال یہ ٹرین کراچی سے چمن اور ازاخیل تک ہی جائے گی لیکن مستقبل میں اس ٹریک کو ازاخیل سے جلال آباد اور چمن سے سپین بولدک تک پھیلانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ گیتا ٹرین کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق: ’اس سے پہلے سارا فائدہ ٹرک مالکان اور کمپنیوں کو ہوتا تھا لیکن اب وہ پیسہ پاکستان ریلویز کے اکاؤنٹ میں جائے گا۔‘انہوں نے بتایا کہ گیتا ٹرین چلانے کا معاہدہ 1965 میں ہوا تھا لیکن بیچ میں یہ مختلف مسائل کا شکار رہا اور بلآخر 2011 میں اس کارگو ٹرین کو بند کر دیا گیا۔

تاریخی پس منظر:1893 میں ڈیورنڈ لائن کی لکیر کھینچنے سے بھارت اور افغا نستان کی سرحدوں کی باقاعدہ طور پر حد بندی کی گئی ۔اس زمانے میں افغانستان کی تمام تر بیرونی تجارت کلکتہ، بمبئی اور کراچی کی بندرگاہوں کے ذریعے ہوا کرتا تھا۔ یہ ٹرانزٹ سہولت حکومت برطانیہ نے افغانستان کو ’فارورڈ پالیسی‘ کے تحت فراہم کی تھی ، تاکہ مملکت افغانستان اقتصادی لحاظ سے روس کی محتاج نہ ہو۔1947 میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد افغانستان بدستور بذریعہ پاکستان اپنے تجارتی تعلقات قائم کیے ہوئے تھا۔

کئی بار دونوں ممالک کے درمیان خراب سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے ٹرانزٹ پر گہرا اثر پڑا۔ پھر بھی کسی نہ کسی طور یہ ٹرانزٹ ٹریڈ جاری رہی۔1965 میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے قواعد و ضوابط لکھے گئے جس سے نہ صرف غیر ملکی بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تجارت پیشہ لوگوں نے بھی خوب فائدہ اٹھایا اور پشاور سے لے کراچی، اور کوئٹہ سے لے کر کندھار، کابل اور جلال آبادتک لوگ اس سے مستفید ہوتے رہے۔ اسی دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ تاجر پیشہ لوگ کسٹم ڈیوٹی بچانے کی خاطر ٹرانزٹ کے نام سے کروڑوں روپے مالیت کے سامان کی افغانستان کے نام پر بکنگ کرواتے ہیں اور جیسے ہی یہ مال قبائلی علاقوں (سابقہ فاٹا) میں پہنچتا ہے، کنٹنیرز کے تالے توڑ کر ادھر ہی خالی کروا دیے جاتے ہیں۔ جس کے بعد خالی کنٹنیرز کو رسماً افغانستان کے حدود میں داخل کروا کر کسٹم ڈیوٹی (گمرک) کی ادائیگی کر دی جاتی تھی۔

یہ سمگل شدہ سامان، جس میں زیادہ تر ٹیکسٹائل اور الیکٹرونک کا سامان ہوتا تھا، مشہور پاکستانی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا تھا۔ افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران ایک لمبا عرصہ اس غیر قانونی سمگلنگ کو فروغ دیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ روس سے لیا گیا اسلحہ اور اس کے بعد نیٹو کا اسلحہ اور گولہ بارود سمگل کیا جانے لگا۔ جو اکثر طالبان اور دوسرے جنگجو گروہوں کے ہاتھ بھی لگتا رہا۔اس تمام سمگلنگ کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کو شدید اقتصادی نقصان پہنچا بلکہ نیٹو کا سامان بھی دوبارہ غیر قانونی راستوں سے پاکستان آنے لگا جس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوئی ۔بلآخر پاکستان فوج کی مدد سے سرحد پر واقع تمام غیر ضروری راستوں کو خاردار تار کے ذریعے کامیابی سے بند کر دیا گیا اور چور دروازوں کو مکمل سیل کر دیا گیا۔ موجودہ وقت میں صرف چمن ، غلام خان ، انگور اڈہ اور طورخم کے راستے آمدورفت کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔ ان میں سے صرف دو راستوں پر ٹرین کا سلسلہ بارڈر تک پہنچتا ہے ۔ جس میں کوئٹہ سے چمن اور پشاور سے لنڈی کوتل تک 1947 سے پہلے کی ریلوے لائن بچھی ہوئی ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق، ان دو راستوں کو عرصہ دراز سے کارآمد بنانے کی تجاویز زیر غور رہی ہیں جس میں چمن سے سپین بلدک اور کندھار ،جو کہ 115 کلومیٹر کا راستہ بنتا ہے،تک ریلوے لائن بچھا کر ٹرانزٹ ٹریڈ کو مزید آسان بنا کر تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔جب کہ شمال میں پشاور سے لنڈی کوتل تک خستہ حالت کی پٹڑی کو دوبارہ مرمت کرکے جلال آباد اور کابل تک بچھانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔رانزٹ ٹرین سے فائدہ؟ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں تجارت ، معیشت اور نقل و حرکت کا سستا اور تیز رفتار ذریعہ ریلوے کا نظام ہوتا ہے۔افغانستان میں ریل کی آمد نہ صرف اس کے بڑے شہروں کو فروغ دے گی۔بلکہ اس سے ہمسایہ ممالک تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، اورایران کی منڈی تک رسائی کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہوگی۔

دوسری جانب پاکستان کے لیے بھی یہی ذریعہ آمدورفت نہایت مفید ثابت ہوگا کیونکہ اس سے تجارت کو فروغ اور دوام ملے گا جس میں سنٹرل ایشیا کے ممالک کا خام سامان جیسے کہ کپاس، معدنیات، ٹیکسٹائل، کوئلہ، خشک میوہ جات، تازہ پھل، چمڑہ، جواہرات قالین، اور مویشی پاکستان با آسانی پہنچ سکیں گے۔اس کے علاوہ پاکستان کی تجارتی منڈی سے بھی تازہ پھل، سبزیاں، پولٹری ، سیمینٹ ، سریا، ٹیکسٹائل، سینیٹری، کراکری، جوتے، گھریلو استعمال کی اشیا، الیکٹرانکس، اور پرزہ جات وغیرہ ہر موسم میں محفوظ طریقے سے پہنچ سکیں گے۔اس ٹرین کے ذریعے دونوں ممالک کی سڑکوں پر رش کم ہوگا، ٹورازم کو فروغ ملے گا۔ افغانستان نے اپنے آپ کو خود کفیل کرنے کے لیے پاکستان کے علاوہ تجارت کے لیے ایک اور راستہ بھی اختیار کر لیا ہے جو کہ نیمروز صوبے سے گزر کر چابہار بندرگاہ تک پہنچتا ہے۔

یہ دوطرفہ مال بردار سڑک ہندوستان کی مدد سے تعمیر کی گئی ہے تاہم چابہار کی بندرگاہ پھر بھی افغانستان کی تمام تجارتی ضروریات پورا نہیں کر سکتی۔ سی پیک منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں پھر بھی پاکستان کی ضرورت پڑے گی۔