حکومت بجلی کے بڑے ڈیفالٹرز کے سامنے بے بس اربوں روپے پھنس گئے
کھربوں روپے بجلی واجبات کے نادہندگان سالہا سال سے مفت بجلی کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کو ایک سو تیس ارب روپے سے زائد کی عدم وصولیوں کا سامنا ہے۔ نادہندگان نے پیسکوکے بھی دس ارب روپے دبا لیے۔عام آدمی 2 ماہ کا بل جمع نہ کرائے تو میٹر کاٹ کر اسے بجلی سے محروم کرنے والی سپلائی کمپنیاں اربوں روپے کے نادہندگان کے سامنے بے بس ہیں۔ واجبات 150 ارب روپے سے زائد لیکن وصولیاں صفر ہے۔
ستم ظریفی یہ کہ ان بڑے نادہدنگان کو بجلی کی فراہمی بھی مسسلسل جاری ہے۔ جن میں گھریلو، زرعی، کمرشل اور صنعتی صارفین شامل ہیں۔ سرکاری دستاویز کے مطابق بجلی کی دس تقسیم کار کمپنیوں میں 40 ہزار سے زائد ڈیفالٹرز ایسے ہیں جنہوں نے سالہا سال سے بل ہی نہیں دیا لیکن بجلی اپنا حق سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔
نادہندگان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی کمپنیوں میں کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی پہلے نمبر پر ہے جس کے26 ہزار زرعی صارفن پر 130 ارب سے زائد رقم واجب الادا ہے۔دوسرے نمبر پر پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے 10 ارب روپے کے واجبات ہیں اور اس کے ڈیفالٹرز کی تعداد ساڑھے 6 ہزار سے زائد ہے۔سیپکو یعنی سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی ساڑھے 5 ہزار ڈیفالٹرز اور 6 ارب روپے کی عدم ادائیگیوں کیساتھ تیسرے اور ٹیسکو یعنی ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی 3 ارب کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔فہرست میں فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی صرف ایک ڈیفالٹر کے ساتھ بہترین پوزیشن پر ہے جس کے ذمے 12 لاکھ روپے ہیں۔ حکومت نے گزشتہ رات 500 بڑے ڈیفالٹرز کے کنکشن منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن باقی ساڑھے 39 ہزار کا کیا ہوگا کچھ معلوم نہیں۔