گل لالہ کا باغ مظفرآباد، آزاد کشمیر
مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں ایشیا کا سب سے بڑا ٹیولپ گارڈن (گل لالہ کے پھولوں کا باغ) واقع ہے لیکن اب آزاد کشمیر میں بھی اسی طرز کا ایک باغ قائم کر دیا گیا ہے۔اسے مظفرآباد میں مغل دور کے جلال آباد پارک میں قائم کیا گیا ہے اور اس کا نام ’باغ یکجہتی کشمیر گل لالہ‘ رکھا گیا ہے۔آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کے پریس سیکرٹری راجہ وسیم کے مطابق دارالحکومت میں اس باغ کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہے.
گذشتہ سال اگست میں انڈین حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد وادی کے رہائشیوں کو غیر معمولی لاک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔آزاد کشمیر میں محکمہ زراعت کے مطابق باغ کے قیام کے لیے گل لالہ کی پنیری ہالینڈ سے منگوائی گئی ہے۔ چھ ماہ میں گل لالہ کی 11 اقسام کے مخلتف رنگوں کے 20 ہزار پھول اُگائے گئے ہیں۔حکام کے مطابق باغ کے قیام کے لیے انھوں نے خطے میں گل لالہ کے ماہرین کی بھی مدد حاصل کی ہے۔ویسے تو گل لالہ کا ذکر پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کی شاعری میں بھی ہے لیکن اب اس باغ کی بدولت صدیوں سے غائب مقامی پھول کی واپسی ممکن ہوئی ہے۔
باغ یکجہتی کشمیر گل لالہ کا افتتاح آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کیا جس کے بعد اسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ماہرین کے مطابق ماضی میں جموں و کشمیر میں لوگ لکڑی اور مٹی سے بنے اپنے مکان کی چھت پر گل لالہ کے پھول اُگایا کرتے تھے۔مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں یہ خوبصورت پھول سیاحت کے فروغ اور روزگار کا ذریعہ ہے۔محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بشیر احمد بٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں لوگ عام طور پر اپنے گھروں میں ٹیولپ کے ایک، دو پھول اُگا لیتے ہیں مگر کوئی ٹولپپ گارڈن موجود نہیں تھا۔ اس لیے یہ یہاں کا پہلا ٹولپپ گارڈن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر سال یہاں سیاح بلند و بالا پہاڑ، برف و جنگلات، سر سربز میدان اور بہتی آبشاریں دیکھنے آتے ہیں مگر اس بار وہ مظفرآباد میں داخل ہوتے ہی گل لالہ دیکھ سکیں گے۔محکمہ زراعت میں سبجیکٹ میٹر سپیشلسٹ مبشر سیف کا کہنا ہے کہ ان ٹیولپس کی دیکھ بھال کے لیے ایک ماہ بعد ان پودوں کو نکالا جائے گا، فنجائی (پھپھوندی) کے خاتمے کے لیے فنجی سائٹ کا استعمال کیا جائے گا اور صاف کرنے کے بعد خشک کر کے پودے کا بالائی حصہ کاٹ دیا جائے گا۔اس طرح اسے وادی نیلم کے دوسرے حصوں میں لگایا جائے گا جبکہ کیل میں موجود نان مون سون مقام پر اسے محفوظ رکھا جا سکے گا۔لاہور سے تعلق رکھنے والی پھولوں کی ماہر نوشین سرفراز کے مطابق گل لالہ بنیادی طور پر کشمیر کا پھول ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈچ لوگوں نے انھیں پوری دنیا میں پھیلایا اور اب اس ’کشمیر کے پھول‘ کو ہالینڈ سے حاصل کیا گیا ہے۔سرینگر میں قائم ایشیا کے سب سے بڑے ٹیولپ گارڈن کے بانیوں میں شامل جاوید احمد شاہ نے مظفرآباد میں قائم ہونے والے گل لالہ کے باغ میں بطور ماہر اپنی معاونت کی ہے۔باغ کی تیاری مکمل ہونے پر وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ مظفرآباد پہنچے اور اس باغ کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے گل لالہ یہاں ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں اسی طرح انڈیا اور پاکستان کے کشمیریوں کا آپس میں ایک خاص تعلق ہے۔
اس باغ کو پہلی بار دیکھنے والی ایک طالبہ سیدہ نورالعین کہتی ہیں ’گل لالہ کے مختلف رنگوں کے پھول دیکھ کر میرے اندر خوشی کی لہر دوڑی ہے کیونکہ وادی کشمیر سرینگر میں بھی گل لالہ کا باغ ہے۔‘’اس باغ کو دیکھ کر مجھے وادی کشمیر کے وہ بہن بھائی یاد آ رہے ہیں جو کئی برسوں سے آزادی کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں.‘
اس خطے کی سپریم کورٹ میں بطور وکیل فرائض سرانجام دینے والے فاروق کشمیری نے اس موقع پر کہا: ’میں جب بھی پرمٹ پر (اجازت لے کر) سرینگر گیا تو وہاں کی گارڈننگ کو دیکھا جو بہت شاندار ہے۔ اس لیے اگر کرہ ارض پر جنت ہے تو وہ کشمیر ہے۔‘ماہرین کا کہنا ہے کہ گل لالہ کے اس باغ کے قیام سے اس پھول کی افزائش ہو سکے گی جبکہ لوگوں کو روزگار اور سیاحت کو فروغ مل سکے گا۔