عورت، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی سمیت ہر روپ میں مقامِ توقیر پر فائز، آج عالمی یوم خواتین

0308202010

لاہور: صنفی امتیاز کے خاتمے، حقوق نسواں اور خواتین کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے آج دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں سال اس دن کا موضوع ”بہتری کے لئے توازن” رکھا گیا۔عالمی یوم خواتین، ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی عزت و توقیر کا دن، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی جدوجہد کو سلام پیش کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پہلی بار 1975 میں عالمی یوم خواتین منایا گیا۔ 2 برس بعد 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی باقائدہ منظوری دیدی۔پاکستان کی باہمت خواتین نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ سیاست، معیشت، صحافت، طب سمیت ہر شعبے میں پاکستانی خواتین کی الگ پہچان ہے۔ذہانت، صبر اور ناقابل یقین حوصلوں کی داعی خواتین گھر اور معاشرے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

پاکستانی عورتوں کا کردار قوم کی تعمیر میں انتہائی قابل ستائش ہے۔مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی کامیاب خواتین نے اس دن کی مناسبت سے خصوصی نشست رکھی۔ دُہرے فرائض نبھاتی ورکنگ ویمن کا کہنا ہے کہ اپنی قدر و منزلت کی پہچان سے ہی کامیابی کے سفر کا آغاز ہوسکتا ہے۔

خواتین نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے کا نصف حصہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ شعور و آگاہی کو فروغ دے کر یہاں موجود سماجی ناہمواریوں کو مکمل ختم کیا جا سکتا ہے۔

مدرسری نظام میں عورت ہی حکمران رہی تاآنکہ نجی ملکیت کے ظہور کے ساتھ پدر شاہی نظام نے اُس کی جگہ لے لی یوں جنسی تقسیم کا آغاز ہوا جو ہزار ہا سال چلا اور چلا جا رہا ہے، سرمایہ داری نظام کے آتے ہی عورت کو بھی منڈی کی شے بنا دیا گیا،یہی وہ عدم شراکت تھی جس نے جدید دور کی نسائی تحریک (Feminism) کو جنم دیا۔اس کی پہلی لہر سفرجیٹ موومنٹ یا عورتوں کے حقِ رائے دہی کے لیے تھی جس میں ووٹ کا حق، انتخاب لڑنے کا حق، جائیداد کا حق، مالی خود مختاری اور مساوی مواقع کے مطالبات سامنے آئے۔

دوسری لہر نسواں شہری حقوق کے لیے تھی، جیسے مارٹن لوتھر کنگ کی سول رائٹس موومنٹ۔ اِس لہر میں مساوی اُجرت، مساوی مواقع، جنسی ہراسگی سے تحفظ، زچہ بچہ کے حقوق، حاملہ عورتوں کے حقوق اور مرد و زن کی مساوات پہ زور دیا گیا۔

اسی اثنا میں اشتراکی نسائیت پسندی کی تحریک نے جنم لیا جس کی فکری تشریح سائمن ڈی بیووائر نے اپنی کتاب سیکنڈ سیکس میں کی۔ یہ عورت کی نابرابری اور استحصال کو طبقاتی استحصال کے ساتھ جوڑ کر سماجی نجات کی پرچارک ہے۔ لیکن خود اشتراکیت پسند عورت کے سوال کو طبقاتی سوال کے تابع کرتے ہوئے عورتوں کی نجات کے معاملے میں تغافل کے مرتکب رہے۔

تیسری لہر نسواں نے عورت کو منڈی کی شے بنانے (کموڈٹیفیکیشن)، اس کی جنسی معروضیت، باربی گڑیا اور اشتہارات کی زینت بنانے، انسانی رشتوں کو محض جنسی کاروباری رشتوں میں بدلنے کے خلاف محاذ گرم کیا۔

چوتھی لہر نسواں نے مغرب میں اپنے اعضا سے شرمسار ہونے کی بجائے اپنی نسوانیت کا پرچم لہرا دیا اور صنفی سوال کو تمام دیگر جنسی شناختوں اور اظہار کے ساتھ جوڑ دیا اور سبھی طرح کے صنفی مظاہر اور حلقوں کے حقوق کو نسوانی نجات کے مطالبوں سے مربوط کر دیا۔افریقن امریکی خاتون کمبریلا کرینشا نے عورت کے سوال کو ہر طرح کے نسلی امتیازات، مذہبی تفریق اور طبقاتی عدم مساوات اور ہر طرح کے مظلوموں اور محروموں کی چوراہے میں بین الجہاتی جدوجہد کے ملاپ سے جوڑ دیا، یہ اشتراکی تحریک نسواں ہی کی ایک تخلیقی صورت ہے۔تحریک نسواں کے اس جائزے سے ظاہر ہے کہ عورتیں حقِ خودمختاری چاہتی ہیں اور مردوں کے مساوی حقوق کا تقاضا کرتی ہیں کہ شرفِ انسانی پانا مرد و زن سبھی کا یکساں مقدر بنے اور پدرشاہی جبر اور عورت کی تذلیل ختم ہو۔ظاہر ہے جس کی طاقت اور بالادستی چھینی جائے گی وہ اسے کیسے برداشت کرے گا یہ نہ جانتے ہوئے کہ عورت کی توانائی اور آزادی میں ہی مردوں کی نجات مضمر ہے، مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی!