تیل کی قیمت میں کمی سے ایشیا کی مارکیٹوں میں مندی
سوموار کو ایشیا کی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی جسے تجزیہ نگار قیمتوں کی جنگ قرار دے رہے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ملک سعودی عرب نے ہفتے کے اختتام پر اس وقت اپنے تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا جب جمعے کو وہ روس کو اس بات پر رضامند کرنے پر ناکام ہو گیا کہ ماسکو اپنے تیل کی پیداوار میں تیزی سے کمی لائے۔تیل بنانے والے ممالک کے گروہ اوپیک اور اس کے اتحادی روس نے اس سے قبل تیل کی پیداوار پر لگام ڈالنے کے لیے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔
توانائی کی تغیر پزیر مارکیٹ میں سوموار کو برینٹ آئل کے فیوچرز کی حد گر کر 35.84 امریکی ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو جمعے سے لے کر اب تک تیل کی قیمتوں میں 30 فیصد کی کمی آ چکی ہے۔ جمعے کو سعودی عرب کی قیادت میں 14 ممالک کی تنظیم اوپیک نے روس اور غیر اوپیک اراکین سے بات چیت کی۔انھوں نے کورونا وائرس کے پھیلاو کی وجہ سے تیل کی مانگ میں آنے والی کمی سے نمٹنے کے لیے ملاقات کی تھی۔لیکن طرفین تیل کی پیداوار میں 15 لاکھ بیرل فی دن کٹوتی کرنے اور اس کے طریقہ کار پر رضامند نہ ہوسکے جس کی وجہ سے برینٹ ابتدا میں جمعے کو 50 امریکی ڈالر فی بیرل سے نیچے چلا گیا اور تنزلی کا یہ رجحان ایشیا میں سوموار کو بھی نظر آيا۔
یہ خطہ چین، جاپان، جنوبی کوریا اور انڈیا سمیت چند سب سے زیادہ تیل درآمد کرنے والے ممالک کا گھر ہے۔گذشتہ روز سعودی سٹاک ایکسچینج میں 6 فیصد سے زیادہ کی گراوٹ نظر آئیعالمی سطح پر تیل کی پیداوار اس کے طلب سے زیادہ ہو رہی ہے اور مورگن سٹینلی کے تجزیہ نگار مارٹن ریٹس کا کہنا ہے کہ اوپیک کے رکن ممالک ایسے میں بازار پر قابض ہونے کے لیے مزید تیل نکالیں گے۔مسٹر ریٹس نے کہا: ‘موجودہ صورت حال میں اوپیک ممالک کے لیے پیداوار پر لگام لگانے کا کوئی فائدہ نہیں اور تیل کے بازار میں بظاہر مانگ سے زیادہ تیل کی فراہمی ہے۔’مجموعی طور پر تیل کی قیمت اس سے قبل اس سطح پر جنوری سنہ 2016 میں تھی اور یہ گذشتہ 16 سالوں میں تیل کی سب سے کم قیمت کے نزدیک ہے۔
وندا انسائٹس کمپنی میں توانائی کی تجزیہ نگار وندنا ہری کا کہنا ہے روس اور اوپیک ممالک کے درمیان پیداوار میں کمی کرنے پر رضامندی نہیں ہونے کی وجہ سے بازار سکتے میں آ گیا اور جبکہ گذشتہ سال امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا تھا۔
وندنا ہری نے بتایا: ‘اوپیک اور غیر اوپیک اتحاد کے ٹوٹنے سے تیل کے بازار کو بڑا صدمہ پہنچا ہے اور یہ ایک غیر واضح مستقل کے چیلنجز کے ساتھ آیا ہے۔