نوابوں کی بے شمار دولت؟سب سے بڑا ڈاکہ انڈیا کی ریاست رام پور میں سٹرانگ روم خالی؟
انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے رام پور میں واقع سابق ریاست رام پور میں خاص باغ محل کے اندر ایک سٹرانگ روم یعنی مضبوط کمرہ ہے جہاں بہت زیادہ دولت کی موجودگی کی توقع کی جارہی تھی۔اسے کھولنے کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن جب وہ کمرہ کھلا تو وہاں دولت کے نام پر صرف کچھ صندوق، تجوریاں اور دیگر اشیا ملیں۔ڈسٹرکٹ جج کی جانب سے نواب کے ورثا کے مابین جائیداد کی تقسیم سے قبل ان کی جائیداد کی جانچ کرنے کے لیے مقرر کردہ ایڈووکیٹ کمشنر سوربھ سکسینہ نے کو بتایا کہ اس سٹرانگ روم میں صرف خالی صندوق اور تجوریوں کے علاوہ کچھ دیگر سامان ملے کوئی قیمتی سامان یا کسی قیمتی دھات سے بنے سامان نہیں ملے۔
سوربھ سکسینہ نے کہا: ‘سٹرانگ روم دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اس میں پہلے چوری ہوچکی ہے کیونکہ سٹرونگ روم کی دیوار میں کٹے کا نشان ہے۔ تمام ورثاء اور وکلاء اب تک چھ مرتبہ سٹرانگ روم کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسے سب کی موجودگی میں کھولا گیا۔ سٹرانگ روم کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا تھا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں ملا یہاں تک کہ کوئی دستاویز بھی نہیں ملی۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ اسے اطمینان سے خالی کیا گیا ہو۔’ریاست رام پور کے سابق نواب کے ورثا کے درمیان سپریم کورٹ کی ہدایت پر جائیداد کی تقسیم کے سلسلے میں ضلعی عدالت کے ذریعہ مقرر کردہ دو کمشنر املاک کی جانچ کر رہے تھے۔سٹرانگ روم کی کہانیغیر منقولہ جائیداد کے طور پر جہاں سیکڑوں ایکڑ اراضی کو تقسیم کرنا ہے وہیں کوٹھی خاص باغ میں خزانے سے بھرا ہوا سٹرانگ روم یعنی مضبوط کمرے میں سب کی دلچسپی ہے۔
اس سٹرانگ روم میں نہ صرف نوابوں کی بے شمار دولت رکھی ہے بلکہ اس کمرے کی ساخت کے بارے میں بھی بہت دلچسپی ہے۔ ایک جانب اگر مضبوط کمرے کے تالے نے تکنیکی مہارت کا ہر امتحان پاس کیا ہے تو دوسری جانب اس کی دیواریں ایسی مضبوط دھات سے بنی ہیں کہ اسے توڑنے سے لے کر گیس کے کٹر سے کاٹنے تک کی ہر کوشش اب تک ناکام ہوچکی ہے۔ اب سات مارچ کو ایک بار پھر اس مضبوط کمرے کو کاٹنے کی کوشش کی جائے گی۔رام پور میں نواب خاندان میں جائیداد کی تقسیم پر ایک عرصے سے تنازع چل رہا تھا۔ گذشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے رام پور کے آخری نواب رضا علی خان کی جائیداد کو تمام ورثا میں مسلم پرسنل لا اور شیعہ پرسنل لاء کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پراپرٹی کو 16 افراد میں بانٹنا ہے۔
سات مارچ کو ایک بار پھر ان کی موجودگی میں مضبوط کمرہ کھولنے کی کوشش کی جائے گی۔ بتایا جارہا ہے کہ اس میں ہیرے اور زیورات سمیت بہت سے قیمتی زرو جواہرات رکھے ہیں جن کی قیمت کا اندازہ لگانا بھی مشکل کام ہو سکتا ہے۔پراپرٹی کے تخمیے کے لیے ڈسٹرکٹ جج کے ذریعہ نامزد ایڈووکیٹ کمشنر ارون پرکاش سکسینا کہتے ہیں: ‘دراصل اس مضبوط کمرے کی چابی نواب رضا علی خان کے بڑے بیٹے مرتضیٰ علی خان کے پاس تھی جو ان سے کہیں کھو گئی تھی۔ اس کو کاٹنے کے لیے گیس کا کٹر کو بلایا گیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود جب یہ نہیں کھل سکا تو اب مراد آباد سے ویلڈر طلب کرلیے گئے ہیں جو اسے کاٹنے کی کوشش کریں گے۔
بتایا جارہا ہے کہ مضبوط کمرے کی دیواریں مخلوط دھات سے بنی ہیں جو بہت مضبوط ہیں۔ جن لوگوں میں رام پور کے نواب خاندادان کی جائیداد تقسیم ہونی ہیں ان میں سے صرف کاظم علی خان ‘نوید میاں’ ہی رام پور میں رہتے ہیں۔نوید میاں نے کہا: ‘سٹرانگ روم دیواریں بہت مضبوط ہیں۔ یہ دعوی کیا گیا تھا کہ زلزلہ سے بھی اسے نقصان نہیں پہنچ سکتا اور اب یہ دعویٰ سچ ثابت ہوا ہے۔ جہاں تک قفل یعنی تالے کی بات کی جائے تو اسے برطانیہ کی مشہور چب کمپنی نے بنایا ہے جو پوری دنیا میں تالے بنانے کے لیے مشہور ہے۔ اس کمپنی کا دعوی ہے کہ ان کے تالے کسی اور چابی سے نہیں کھل سکتے ہیں۔ چب کمپنی نے ہی سٹرانگ روم اور تالا دونوں بنایا ہے۔کہا جاتا ہے کہ انگلینڈ کے جریمیا چب ان کے بھائی چارلس نے ایک خاص قسم کا تالا بنایا تھا جس میں غلط چابی لگانے سے وہ کام کرنا چھوڑ دیتا تھا اور پھر اس میں ایک نئی چابی لگانی پڑتی تھی۔ دونوں بھائیوں نے اپنی ٹکنالوجی کو پیٹنٹ کیا اور پھر سنہ 1820 میں چب کمپنی کے نام سے ایک تالا بنانے والی کمپنی قائم کی۔اس کمپنی کی شہرت بہت دور دور تک تھی اور سن 1823 میں جارج چہارم نے اس کمپنی کو انعام سے نوازتے ہوئے پوسٹ آفس اور جیلوں کے لیے تالے بنانے کی ذمہ داری دی تھی۔
چب کمپنی کے تالے کے مداح نہ صرف جارج پنجم تھے بلکہ اس کا ذکر شرلاک ہومز کی جاسوسی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔چب کمپنی ن پہلے تو تالے بناتی تھی لیکن بعد میں اس نے سٹرانگ روم یعنی تجوری بھی تیار کرنی شروع کی اور برطانیہ سے باہر کے درجنوں ممالک میں اپنا کاروبار شروع کیا۔ سنہ 1997 میں اس کمپنی کو ولیم ہولڈنگز لمیٹڈ نے خرید لیا۔ رام پور کے نواب رضا علی خان نے بھی چب کمپنی سے ایک مضبوط کمرہ تعمیر کروایا تھا۔مقامی صحافی محمد مجسم کہتے ہیں کہ ‘مضبوط کمرہ کسی بنکر کی طرح مضبوط ہے۔ چب کمپنی کے انجینیئر اس کی تعمیر کے لیے رام پور آئے تھے۔ اسے بنانے میں اس جرمن اسٹیل کا استعمال ہوا تھا جو فوجی ٹینک بنانے میں استعمال ہوتا تھا۔ کہ اگر اس پر بمباری بھی کی جائے تو اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔’
سٹرانگ روم کی مضبوطی سے زیادہ پر اسرار بات اس کی چابی کا کھو جانا ہے۔ نوید میاں کہتے ہیں کہ اسٹرانگ روم میں یوں تو بہت سی چیزیں ہیں لیکن ان کے ملنے کا امکان نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘سپریم کورٹ کو اس میں موجود پانچ ہزار سے زیادہ چیزوں کی فہرست سونپی گئی تھی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اب یہ چیزیں اس میں ہوں گی۔ در حقیقت اب تک اس پر صرف ایک شخص کا قبضہ تھا اور انھوں نے وہ کام کیا جس کی وہ خواہش کرتے تھے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ملیں گی انھیں تقسیم کیسے کیا جائے گا۔’تاہم اس بارے میں ایڈووکیٹ کمشنر ارون پرکاش سکسینا کا کہنا ہے کہ اس میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ قیمتی دھاتوں کا اندازہ کیا جائے گا لیکن جو چیزیں ٹوٹی یا خراب ہوئیں ان کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
دوسری طرف مرتضیٰ علی خان کے بیٹے مراد میاں نے اس کی تردید کی ہے کہ مضبوط کمرے سے کوئی چیز غائب ہوگئی ہے۔ دراصل مراد میاں زیادہ تر گوا اور دہلی میں رہتے ہیں رام پور میں ان کی آمد کم ہے۔ ان کی بہن نکہت عابدی بھی بیرون ملک رہتی ہیں۔یہ سٹرانگ روم تقریبا چار دہائی قبل بھی موضوع بحث تھا جب یہاں ڈاکہ پڑا تھا۔ سنہ 1980 میں سونے، چاندی اور ہیرے کے تمام قیمتی سامان مضبوط کمرے سے غائب ہوگئے تھے۔ اس واقعے کی تحقیقات سی بی سی آئی ڈی نے کی تھی اور اس نے اسے اب تک کی سب سے بڑا ڈاکہ قرار دیا ہے۔
اس واقعے کے دو سال بعد سی بی سی آئی ڈی نے ایک سی آر پی ایف جوان کو گرفتار کیا جس کے گھر سے کچھ قیمتی سامان ملے تھے۔اس وقت یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس طرح کے ڈاکے کسی کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے جس کا کوٹھی سے گہرا تعلق ہے۔ چھان بین کے باوجود ڈاکہ زنی کا وہ واقعہ اور اس میں موجود گمشدہ چیزیں آج بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔