حقوقِ نسواں: روایتی و عہد حاضر

031220205

خواتین مارچ تو 8مارچ کا گزر چکا مگر اس پر مباحث ہنوز جاری و ساری ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم اس مسئلہ پر دو گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک روایتی طبقہ ہے جو خود کو مذہب پسند قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا جدیدیت کا علمبردار طبقہ ہے جو خود کو روشن خیال سمجھتا ہے۔ معاشرے میں خواتین کی حیثیت و مقام کے حوالے سے دونوں کی ترجیحات میں فرق ضرور ہے لیکن خواتین کی عزت و حرمت سے متعلق بظاہر انکار کسی کو بھی نہیں ہے۔

روایتی طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ حقوق و فرائض کا ہو یا مقام و مرتبے کا، ہمیں رہنمائی بہرحال کتاب و سنہ سے لینی ہے۔ قرآن و حدیث میں خواتین کے متعلق 14سو سال پہلے جو کچھ کہہ دیا گیا ہے وہ حرفِ آخر ہے، ہمیں اس میں قطع و برید کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر قرآن شریف نے وراثت میں عورت کا حصہ آدھا رکھا ہے یا اس کی گواہی اسلامی قانونِ شہادت میں مرد کے مقابل آدھی رکھی گئی ہے تو پھر آدھی ہی رہے گی، اس عظیم ترین سند کے مقابلے پر لاکھ دلیلیں بھی بیکار ہیں۔ اسی طرح خواتین کے لیے پردے یا حجاب کے جس معیار پر آج وہ اصرار کرتے ہیں اُن کا نظریہ یہ ہے کہ یہ معیار ہم نے نہیں بلکہ پروردگارِ عالم نے ابدی طور پر مقرر کر دیا ہے جس سے انحراف کی سرمو گنجائش نہیں ہے۔

روایتی فکر کے حاملین خواتین و حضرات کو اگر آج ہماری ماڈریٹ خواتین کے مارچ میں کچھ برائیاں نظر آتی ہیں تو وہ بنیادی طور پر شرعی و دینی تقاضوں کے حوالے سے ہیں۔ پاکیزگی کا معیاری تصور یہی ہے کہ وہ عام سے عام معاملات میں بھی شرعی تقاضوں کو حرزِ جان بنائیں، بناؤ سنگھار سے پرہیز کریں، اگر زینت اختیار کرنی بھی ہے تو وہ صرف اپنے خاوند کے لیے ہونی چاہئے حتیٰ کہ انہیں خوشبو لگا کر گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہئے بلکہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں گھروں سے باہر نکلنے سے ہی احتراز کرنا چاہئے اگر بصورتِ مجبوری نکلنا پڑ جائے تو پھر شرعی تقاضوں یعنی حجاب وغیرہ کی پوری پابندی کے ساتھ نکلنا چاہئے۔ اس مقدس سوچ کے ساتھ بھلا کسی ایسے عورت مارچ کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے جس میں نوجوان لڑکے بھی دندناتے پھر رہے ہوں۔

ہر شخص کا سب سے پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ اپنے پانچ یا چھ فُٹے جسم پر اپنے خالق و مالکِ حقیقی کی مرضی لاگو کرے اگر عملی کوتاہی ہو بھی جاتی ہے تب بھی کوشش یہی ہونی چاہئے۔ اگر خدا نے کہا ہے کہ اپنے اس جسم کو برقع یا حجاب میں رکھو تو تم سب پابند ہو کہ اس ابدی حکم کی پابندی و پیروی کرو۔اگر شریعت یہ کہتی ہے کہ بعض صورتوں میں مرد عورت کی اتنی پٹائی کر سکتا ہے جس سے اُس کی ہڈی نہ ٹوٹے اور خون نہ بہے تو پھر مرد کو بھی چاہئے کہ اس حد سے آگے نہ جائے۔ اگر کتابِ مقدس میں مرد کے لیے چار شادیوں کی اجازت ہے تو پھر انصاف کی شرط پوری کرتے ہوئے اُسے اپنا یہ حق استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے، ایسی قانون سازی خلافِ اسلام ہے جس میں اُس پر دوسری یا تیسری شادی کے لیے یہ قدغن لگائی جاتی ہے کہ وہ پہلی، دوسری اور تیسری سے اجازت طلب کرتا پھرے۔ اس طرح کم عمری کی شادی پر جب شریعت بندش نہیں لگاتی تو پھر ہماری یہ مادر پدر آزاد عورتیں کیوں 18سال تک بندش کے مطالبات کرتی ہیں۔

قدیمی کلچر یا تمدن میں ہر طاقتور کمزور کو ملکیت سمجھتا تھا، صدیوں کا طویل ترین سفر طے کرنے کے باوجود اس جبری اپروچ کے کئی گوشے دنیا میں آج بھی موجود ہیں۔ بدقسمتی سے روایت پرست خطوں کی عورت آج اکیسویں صدی میں بھی اس کا شکار ہے۔ ہمارے قومی شاعر بیسویں صدی میں یہ اصرار کرتے پائے جاتے ہیں کہ ’’ناموسِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد‘‘۔