عراق میں اتحادی فوج کے اڈے پر راکٹ حملہ، امریکی و برطانوی فوجی اہلکاروں سمیت تین ہلاک
بغداد کے شمال میں امریکہ اور برطانیہ کی فوج کے لیے قائم تاجی فوجی اڈے پر راکٹ حملے کے نتیجے میں تین اہکار ہلاک اور کم از کم 12 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔امریکی فوجی ذرائع نے بتایا کہ اس حملے میں ایک امریکی فوجی، ایک امریکی ٹھیکیدار اور ایک برطانوی فوجی ہلاک ہوا ہے۔ تاہم ہلاک ہونے والے اہلکاروں کے نام ابھی تک جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
رواں برس جنوری میں امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے میں ایران کے سینئر کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے خطے میں صورتحال کشیدہ ہے۔عراق اور شام میں امریکہ کے زیر قیادت اتحاد کے ایک بیان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فوجی اڈے پر 18 راکٹوں سے حملہ کیا گیا جس میں اتحادی فوج کے 3 اہلکار ہلاک ہوئے۔اس سے قبل کے ایک ٹویٹ میں، اتحادی افواج کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ حملہ بدھ کو مقامی وقت کے مطابق 7:35 بجے ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔برطانیہ کی وزارت دفاع نے اس تازہ واقعے کے بارے میں کہا ہے کہ ’ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ہم عراق کے تاجی کیمپ میں واقع برطانوی فوج کے اہلکاروں سے متعلق ایک واقعہ سے آگاہ ہیں۔اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے اور اس وقت اس بارے میں مزید تبصرہ کرنا نامناسب ہو گا۔‘
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملہ ’افسوسناک‘ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ سے بات کی ہے اور ہم اس گھناونے حملے کی تفصیلات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ رابطے جاری رکھیں گے۔‘کسی نے ابھی تک اس حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی امریکہ اور برطانیہ نے اس کا الزام کسی پر عائد کیا ہے۔ مگر ماضی میں امریکہ نے عراق میں ایران کے حمایت یافتہ دھڑوں پر اسی طرح کے حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
شام کی سرحد کے قریب عراق میں بھی کہیں اور انتقامی فضائی حملوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تاہم ان کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ایران عراق کی شیعہ اکثریتی حکومت کا قریبی اتحادی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اپنے آپ میں اس ملک میں اہم کردار کا حامل ہے اور متعدد اپنی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے ذریعے مصروفِ عمل ہے۔ امریکہ کے تقریباً پانچ ہزار فوجی عراق میں موجود ہیں جو باقی رہ جانے والے دولتِ اسلامیہ کے عناصر کو شکست دینے کے لیے عراقی افواج کی تربیت کر رہے ہیں۔گذشتہ برس دونوں روائتی حریفوں کے درمیان اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا جب ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے جنگجوؤں کی جانب نے امریکی فوج اور سویلین اہلکاروں کو راکٹ حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔ جبکہ عراق میں ملیشیا کی تنصیبات اور ایرانی اہلکاروں کو بھی فضائی حملوں میں نشانہ بنایا گیا جس کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی تھی۔
امریکہ نے مغربی عراق اور مشرقی شام میں اس کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے جس میں کم از کم 25 جنگجو ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے ہجوم نے حملہ کیا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اس کی ’بہت بڑی قیمت ادا کرے گا۔‘3 جنوری کو صدر ٹرمپ نے بغداد ہوائی اڈے کے قریب ڈرون حملے کی اجازت دی جس میں ایران کی قدس فورس کے سنیئر کمانڈر اور مشرق وسطیٰ میں ایرانی پالیسی کے معمار قاسم سلیمانی اور کتائب حزب اللہ کے رہنما ابو مہدی المہندس ہلاک ہو گئے تھے۔پانچ دن بعد ایران نے عراق میں امریکی افواج کے اڈے پر بیلسٹک میزائل داغے تھے۔ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن بعدازاں کہا گیا کہ 100 سے زائد امریکی فوجی اہلکاروں کو دماغی چوٹیں آئی تھیں۔
عالمی اتحاد کے تحت عراق میں تقریباً 5000 امریکی فوجی اہلکاروں سمیت دیگر ممالک کے سینکڑوں اہلکار موجود ہیں۔پیر کے روز وسطیٰ عراق کے قراقچو پہاڑوں میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے ایک ٹھکانے پر چھاپے کے دوران دو امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔اتحادی فوج عراق میں حکومت کی دعوت پر موجود ہیں لیکن عراقی پارلیمنٹ نے ایک بل منظور کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اتحادی افواج کو واپس بھیجا جائے۔ جبکہ مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کے 400 فوجی دستے ہیں اور وہ خطے میں امریکی افواج کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔