کورونا وائرس: پاکستان میں دو جانبحق، 304 متاثرین، پنجاب میں دکانیں جلد بند کرنے کا حکم، دفعہ 144 نافذ
خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور جھگڑا نے کورونا وائرس کے باعث دو ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ ٹوئٹر پر انھوں نے اپنے پیغام میں مردان اور ہنگو سے تعلق رکھنے والے متاثرہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی۔جبکہ دارالحکومت اسلام آباد اور صوبہ سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں کے علاوہ کشمیر میں کورونا وائرس کے نئے مریض سامنے آنے کے بعد پاکستان اور اس کے زیرِانتظام کشمیر میں اس وبا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 304 تک پہنچ گئی ہے۔
وفاقی اور صوبائی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں 208، پنجاب میں 33، خیبر پختونخوا میں 17, بلوچستان میں 23، گلگت بلتستان میں 13 اور اسلام آباد میں کورونا کے سات متاثرین موجود ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی ایک مریض کی تصدیق کی گئی ہے۔اس طرح پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں کورونا وائرس سے متاثر زیر علاج مریضوں کی تعداد 300 ہے جبکہ دو مریض ہلاک اور دو ہی صحت یاب ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی مسلح افواج نے بھی کورونا کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کیے ہیں اور جہاں سماجی روابط میں احتیاط برتنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔فوج میں اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے جبکہ واپس آنے والوں کی سکریننگ کی جا رہی ہے۔پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے بی بی سی کی فرحت جاوید کو بتایا ہے کہ تمام فوجی ہسپتال مکمل طور پر تیار ہیں، ’ہر ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ قائم کر دیے گئے ہیں جبکہ وہاں ڈاکٹر اور طبی عملہ بھی تعینات کر دیا گیا ہے۔‘ادھر ملک کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین کے دورے سے واپسی پر پانچ دن کے لیے ’سیلف آئسولیشن‘ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ہمراہ چین کے دورے پر گئے تھے۔منگل کی شب پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں تاہم اس وائرس کے خلاف جنگ حکومت اکیلے نہیں لڑ سکتی اور عوام کو ان کا ساتھ دینا ہو گا۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں کو پہلے ہی پانچ اپریل تک بند کیا جا چکا ہے جبکہ ملک کی سرحدیں بھی پندرہ روز تک مکمل بند اور بین الاقوامی پروازیں محدود کی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ صوبہ سندھ میں حکومت نے بدھ سے جزوی ’لاک ڈاؤن‘ کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے بدھ کو کہا ہے کہ ملک بھر میں یکم جون تک تمام امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیر تعلیم نے بتایا کہ یکم جون سے پہلے کیمرج سکول سسٹم کے تحت امتحانات بھی نہیں ہوں گے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں دو افراد کی کورونا سے ہلاکت کے بعد صوبے میں اب اس وائرس کے 17 مریض موجود ہیں۔ صوبائی وزیرِ صحت تیمور جھگڑا نے بدھ کی شب جن دو مریضوں کی ہلاکت کی تصدیق کی انھیں حکام نے بدھ کو ہی کورونا کے مریضوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ان میں سے 50 سالہ سعادت خان کا تعلق مردان سے تھا اور وہ نو مارچ کو سعودی عرب سے واپس آئے تھے جبکہ ہلاک ہونے والے دوسرے مریض کی عمر 36 برس اور ان کا تعلق ہنگو سے بتایا گیا ہے۔ مذکورہ مریض کا علاج پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں جاری تھا اور وہیں انھوں نے دم توڑا۔
وزیرِ صحت کے مطابق اب صوبے میں کورونا کے جو 17 مصدقہ مریض ہیں ان میں سے 15 کا تعلق زائرین کے اس گروپ سے ہے جو ایران سے واپس آیا ہے اور انھیں تفتان سے ڈیرہ اسماعیل خان لایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مریض کا تعلق بونیر اور ایک کا مانسہرہ سے ہے اور مانسہرہ والے مریض بھی حال ہی میں برطانیہ سے پاکستان آئے تھے۔خیبر پختونخوا میں بھی حکومت نے کورونا سے بچاؤ کے لیے اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت بازار اب صبح دس بجے سے شام سات بجے تک ہی کھلیں گے تاہم کریانہ اور روزمرہ اشیائےضرورت کی دکانیں 24 گھنٹے کھلی رہ سکتی ہیں۔
حکومت نے 15 دن کے لیے صوبے میں خریداری کے بڑے مراکز اور حجام کی دکانیں بند کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ عوامی مقامات اور شادی ہالوں کے علاوہ گھروں میں بھی تقریبات کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے اور سیاحتی مقامات کی جانب سفر بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔تمام ریستورانوں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ اپنے احاطے میں کھانا نہیں کھلا سکتے تاہم ہوم ڈیلیوری کی سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اب سرکاری اجلاس میں صرف پانچ افراد ہی شریک ہو سکتے ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو باقی افراد ویڈیو لنک کے ذریعے شامل ہوں گے.خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیشِ نظر پہلے ہی 15 روز کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے،ہاسٹل بند کرنے اور جیلوں میں قیدیوں سے ملاقاتیں معطل کرنے کے فیصلے بھی کیے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں صوبہ سندھ بدستور اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے جہاں بدھ کو بھی مزید 36 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔ اس کے بعد صوبے میں ایسے افراد تعداد 208 ہو گئی ہے جن میں کووڈ-19 کی تصدیق کی جا چکی ہے اور ان میں سے دو صحت یاب ہو چکے ہیں۔ان میں سے 151 مریض سکھر میں ہیں جبکہ 56 مریضوں کا تعلق کراچی اور ایک کا حیدرآباد سے ہے۔
بدھ کو سندھ میں کورونا کے جو نئے 17 مریض سامنے آئے ہیں وہ تمام سکھر کے قرنطینہ میں رکھے زائرین ہیں جو تفتان کے قرنطینہ میں 14 دن کا وقت گزارنے کے بعد سندھ لائے گئے تھے جہاں ان کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔سندھ کے وزیراعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق بدھ کی شام سکھر میں رکھے گئے مزید آٹھ زائرین میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ کے معاونِ خصوصی مرتضیٰ وہاب نے بدھ کی صبح پریس کانفرنس میں بتایا کہ تھا کہ نو افراد میں کورونا وائرس پایا گیا ہے۔ترجمان کے مطابق اب تک سکھر میں جن 303 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں جن میں سے 151 زائرین میں اب تک کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
بدھ کو بھی تفتان سے تقریباً 750 زائرین بسوں کے ذریعے سکھر پہنچائے گئے ہیں۔ سکھر پہنچنے والے افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور انھیں لیبر کالونی کے قرنطینہ کے مختلف بلاکس میں رکھا جائے گا۔ ایس ایس پی سکھر عرفان سموں کے مطابق انھیں لانے والی بسوں ڈرائیورز اور عملے کے 70 افراد کو بھی قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔مرتضٰی وہاب کے مطابق صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے سرکاری سطح پر تین ہسپتالوں میں اب تک مجموعی طور پر 844 ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں، جن میں آغا خان ہسپتال میں 506، ڈاؤ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں 61 اور انڈس ہسپتال میں 277 افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ کی حکومت کو وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال صرف 200 تشخیصی کٹس ہی موصول ہوئی ہیں۔
سندھ حکومت نے صوبے میں جزوی ’لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کیا ہے اور صوبے کے تمام ریستوران اور شاپنگ مراکز بدھ سے 15 دن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں تاہم کریانہ سٹور کے علاوہ سبزی اور گوشت اور دیگر اشیائے ضرورت کی دکانیں کھلی رہیں گی۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد بازار میں اشیائے خوردونوش خریدنے والوں کا رش دیکھا گیا ہے.فیصلے کے مطابق صوبے کے عوامی پارک اور کراچی میں ساحلِ سمندر بھی بدھ سے بند کر دیا گیا ہے جبکہ تمام اقسام کی اجتماعات کے اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق صوبے میں سرکاری دفاتر بھی جمعرات سے بند کر دیے جائیں گے جس کا نوٹیفکیشن چیف سیکریٹری جاری کریں گے۔بدھ کو پریس کانفرنس میں مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے ریستورانوں کی جزوی بندش کا فیصلہ انتہائی مشکل صورتحال کے پیش نظر کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ وہ کراچی کے اُن شہریوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اپنے کاروبار اور ریستوران بند کیے، تاہم اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اس پر ابھی 100 فیصد عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بدھ کو انھوں نے کراچی شہر کے کچھ ریستوانوں کو حکومتی پابندی کی خلاف ورزی کرتے دیکھا ہے، جس کے حوالے شہری انتظامیہ کو کاروائی کی استدعا کی ہے۔
سندھ میں کورونا سے بچاؤ کے اقدامات کے تحت صوبے کے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے پہلے ہی 31 مئی تک بند کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے بھر میں شادی ہال، سینما گھر، مزار اور درگاہیں تین ہفتوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے تین ارب رپے کا کورونا ریلیف فنڈ بھی قائم کیا ہے اور وزیر، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کابینہ کے تمام ارکان، پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ایک ماہ کی تنخواہ اس فنڈ میں جمع کرائیں گے۔
پنجاب میں بھی ایران سے آنے والے زائرین کے پہنچنے کے بعد کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور متاثرہ افراد کی تعداد 33 تک پہنچ گئی ہے۔ بدھ کو آٹھ افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی جبکہ منگل کو پنجاب میں 25 افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔محکمۂ صحت کے ترجمان کے مطابق ان میں سے 20 ان زائرین میں سے تھے جو تفتان کے قرنطینہ میں وقت گزارنے کے بعد پنجاب لائے گئے تھے۔ ان کے مطابق اس کے علاوہ لاہور میں چھ، ملتان میں پانچ جبکہ گجرات میں دو مریضوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بدھ کو پریس کانفرنس میں نئے مریضوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حکام اب ڈیرہ غازی خان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام 736 زائرین کا ٹیسٹ کر رہے ہیں جبکہ وہاں تفتان سے آنے والے مزید 1276 زائرین کا بھی ٹیسٹ کیا جائے گا۔محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ جن 28 مریضوں میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے انھیں آئسولیشن وارڈ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اب تک صوبے بھر کے ہسپتالوں میں 199 مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں جن میں سے 39 زیر نگرانی افراد کے نتائج آنا باقی ہیں۔
سندھ کے بعد پنجاب کی حکومت نے بھی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے مطابق صوبے میں خریداری کے بڑے مراکز، رسیتوران اور دکانیں رات 10 بجے بند کر دی جائیں گی جبکہ شہریوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے مرحلہ وار اقدامات کیے جائیں گے۔حکومتِ پنجاب کے صوبے کے سب سے مقبول سیاحتی مقام مری کو بھی سیاحوں کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہاں کے مقامی لوگوں کو بھی اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کو کہا ہے۔
حکومت پنجاب کی ایپکس کمیٹے کے فیصلوں کے مطابق صرف ضروری سرکاری ملازمین کو دفتر آنے کی ہدایت کی جائے گی جبکہ دیگر ملازمین سے گھروں میں رہنے کو کہا جائے گا۔دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تمام ضروری حفاظتی انتظامات پر عملدرآمد کے پابند ہوں گے.خیال رہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے جمعرات کو کورونا کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صوبے بھر میں طبی ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔
صوبائی وزیرِ صحت یاسمین راشد کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور درپیش صورتحال سے نمٹنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کیے جا چکے ہیں جبکہ ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے تاہم کاروباری سرگرمیاں محدود کرنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔پنجاب کی صوبائی وزیر صحت کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت علما ومشائخ سے بھی رابطے میں ہے کہ مساجد میں بھی لوگوں کے اکٹھے ہونے کے حوالے سے فیصلہ کیا جا سکے۔
صوبائی حکومت نے حفاظتی اقدامات کے تحت تین ہفتے کے لیے صوبے بھر میں تمام مزار، درگاہیں، پارک، جمنازیم، کھیل کے میدان اور بچوں کے کھیل کھود کے مقامات بند کرنے کا حکم دیا ہے۔صوبے کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں قائم کیے گئے قرنطینہ میں سہولیات پر سوال اٹھائے جانے کے باوجود حکام نے افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں بھی کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ایک ویسا ہی قرنطینہ مرکز قائم کیا ہے۔
خیمہ بستی کی شکل میں قائم یہ تیسرا بڑا صوبائی قرنطینہ مرکز ہے۔ اس سے قبل تفتان کے علاوہ اور کوئٹہ شہر کے قریب میاں غنڈی میں قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے تھے۔بلوچستان میں پی ڈی ایم اے کے ترجمان فیصل نسیم پانیزئی کا کہنا ہے کہ چمن میں قائم کیے گئے قرنطینہ مرکز میں ایک ہزار افراد کی گنجائش ہے تاہم لوگوں کو الگ الگ خیموں میں رکھنے کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
منگل کی شب پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں تاہم اس وائرس کے خلاف جنگ حکومت اکیلے نہیں لڑ سکتی.انھوں نے تفتان یا میاں غنڈی میں لوگوں کو اکٹھا رکھنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’سب کے لیے الگ الگ انتظامات کیے جانے کے باوجود لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔‘
تفتان کے قرنطینہ مرکز میں اب بھی دو ہزار سے زیادہ زائرین موجود ہیں جنھیں ان کے متعلقہ علاقوں میں بھیجنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ کمشنر ایاز خان مندوخیل نے بی بی سی کو بتایا کہ زائرین کی روانگی کے سلسلے میں بسوں کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ’پہلے جن بسوں میں زائرین کو پنجاب لے جایا گیا تھا انھیں قرنطینہ کی شرائط کے باعث واپس نہیں آنے دیا گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ زائرین کو ایک ساتھ پہنچانے کے لیے 65 بسوں کی ضرورت ہے جو کہ کوششوں کے باوجود فوری طور پر دستیاب نہیں تاہم پی ڈی ایم نے پہلے مرحلے میں 15بسوں کا انتظام کیا ہے جن میں پہلے سندھ سے تعلق رکھنے والے زائرین کو بھیجا جائے گا۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح مسلح افواج میں بھی مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ فوج کی تمام فارمیشنز سے ان افسران اور جوانوں کی معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں جو حالیہ دنوں میں چھٹیوں پر رہے یا اب ان کی چھٹی ختم ہونے کی صورت میں دوبارہ جوائن کر رہے ہیں۔
مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ افواج میں صفائی اور صحت سے متعلق پہلے ہی قوانین پر سخت پابندی کی جاتی ہے مگر عالمی وبا پھیلنے کے بعد زیادہ احتیاط کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘یہی وجہ ہے کہ فوج میں کورونا کا کوئی مریض نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ مسلح افواج میں اعلیٰ سطح کے تمام اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دورے معطل کر دیئے گئے ہیں۔ نئے تربیتی کورسز کی معطلی جبکہ پہلے سے جاری تربیتی پروگراموں کو قرنطینہ کیا جا رہا ہے۔ متعدد یونٹس میں مساجد میں باجماعت نماز کی بجائے علیحدہ نماز پڑھنے کی تجویزدی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھ ملانے اور بغلگیر ہونے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کہتے ہیں کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوج حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔اس سے قبل فوجی ہسپتالوں میں ان ڈاکٹروں اور پیرا میڈکس سٹاف کے لیے تربیتی پروگراموں کا بھی اہتمام کیا گیا جو آئیسولیشن وارڈ میں ڈیوٹی دے رہے ہیں۔