کورونا وائرس: مشکل گھڑی میں انسانیت کے لیے پانچ حوصلہ افزا باتیں
ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ دنیا بھر میں لوگوں کے لیے ایک مشکل وقت ہے۔ کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، انفیکشنز اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور کئی شہر یہاں تک کہ ممالک بھی بند ہو رہے ہیں اور لوگوں کو زبردستی تنہائی میں بھیجا جا رہا ہے۔وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہمدردی اور رحمدلی کے واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں
مگر تمام تر پریشان کُن خبروں کے ساتھ ساتھ چند ایسی باتیں بھی ہیں جو ہماری امید بندھا سکتی ہیں۔
آلودگی میں کمی ممالک کے لاک ڈاؤن میں جانے کی وجہ سے آلودگی میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔صنعتی سرگرمیوں اور گاڑیوں کے سڑکوں پر آنے میں کمی سے چین اور شمالی اٹلی، دونوں ہی میں نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطحوں میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ فضا میں آلودگی پھیلانے والا ایک طاقتور کیمیکل ہے جس کی وجہ سے حدت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔جنوری اور فروری 2020 میں چین کے شمال مغربی حصے میں آلودگی کا موازنہنیویارک میں محققین نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی نتائج کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں گاڑیوں سے نکلنے والی کاربن مونو آکسائیڈ میں تقریباً 50 فیصد کمی ہوئی ہے۔اور ایئرلائنز کی جانب سے پروازیں منسوخ کیے جانے اور کروڑوں لوگوں کے گھروں سے کام کرنے کی وجہ سے متوقع ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں آلودگی میں کمی کا یہ رجحان جاری رہے گا۔
وینس میں پانی صاف ہو گیا ہےاسی طرح اٹلی کے شہر وینس کے رہائشیوں نے اپنے شہر سے گزرنے والے کئی کینالوں میں پانی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگیا ہے۔شمالی اٹلی میں واقع اس مشہور سیاحتی مقام کی سڑکیں خالی ہیں اور وبا کے پھوٹنے کی وجہ سے آبی ٹریفک میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے گرد بیٹھ گئی ہے۔عام طور پر گدلا رہنے والا پانی اتنا صاف ہوگیا ہے کہ مچھلیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔اٹلی کے شہر وینس میں 18 مارچ 2020 کو لی گئی اس تصویر میں کینال کا صاف پانی دیکھا جا سکتا ہے
ہمدردی کے اقداماتہم سبھی نے حالیہ دنوں میں خریداری میں افراتفری، اور ٹوائلٹ پیپر اور دیگر اشیائے ضروریہ پر لوگوں کو لڑتے جھگڑتے ہوئے دیکھا مگر اس وائرس نے دنیا بھر میں رحمدلی اور ہمدردی کے واقعات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔نیویارک کے دو لوگوں نے صرف 72 گھنٹوں کے اندر 1300 رضاکاروں کا ایک گروہ اکھٹا کر لیا ہے جو شہر میں وائرس کے خطرے کی زد میں موجود لوگوں اور عمر رسیدہ افراد کے گھروں پر اشیائے صرف پہنچائیں گے۔فیس بک نے کہا کہا کہ برطانیہ میں لاکھوں لوگوں نے وائرس سے نمٹنے میں مدد کے لیے قائم کیے گئے مقامی امدادی گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے، جبکہ ایسے ہی گروہ کینیڈا میں بھی قائم کیے گئے ہیں۔امریکہ میں ایک سٹور کے شیلف میں چسپاں پیغام میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ صرف ضروری اشیا ہی خریدیںآسٹریلیا میں سپرمارکیٹوں نے عمر رسیدہ افراد کے لیے ایک خصوصی گھنٹہ مختص کیا ہے تاکہ بڑی عمر کے یا جسمانی طور پر معذور افراد سکون سے خریداری کر سکیں۔اس کے علاوہ لوگوں نے پیسے عطیہ کیے، کھانے کی ترکیبوں کا تبادلہ کیا، ورزش کے آئیڈیاز دیے، اور خود ساختہ تنہائی میں موجود عمر رسیدہ افراد کو امید افزا پیغامات بھیجے۔ کچھ لوگوں نے اپنی دکانوں کو کھانوں کی تقسیم کے مراکز میں تبدیل کر دیا ہے۔
اتحاد سے تنہائی کا خاتمہدفتری اور گھریلو معمولات کی وجہ سے ہم اکثر اپنے آس پاس موجود لوگوں سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ اب جب وائرس سے ہم سب لوگ متاثر ہو رہے ہیں، تو یہ دنیا میں تنہائی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ کئی برادریوں کو قریب بھی لے آیا ہے۔اٹلی جہاں ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے، وہاں لوگوں نے اپنی اپنی بالکونیوں میں جمع ہو کر حوصلہ بڑھانے والے گانے گائے۔جنوبی سپین میں ایک فٹنس انسٹرکٹر نے ایک رہائشی عمارت کی نچلی چھت سے ورزش کی تربیت کروائی اور باقی لوگوں نے اپنی اپنی بالکونیوں سے اس میں حصہ لیا۔کئی لوگوں نے اس موقع کا استعمال اپنے دوستوں اور پیاروں سے فون اور ویڈیو کالز پر بات کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جبکہ دوستوں کے گروپ موبائل ایپس کے ذریعے گھر بیٹھے کلبز کا مزہ لے رہے ہیں۔اس وائرس نے طبی عملے اور اہم شعبوں میں کام کرنے والے دیگر افراد کی اہمیت کو بھی واضح کر دیا ہے۔ ہزاروں یورپی افراد اپنی بالکونیوں میں کھڑے ہو کر وائرس سے نبرد آزما ڈاکٹروں اور نرسوں کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں جبکہ لندن میں میڈیکل کے طلبا نے طبی عملے کے بچے سنبھالنے اور ان کے گھروں کے کام کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر خدمات پیش کی ہیں۔اٹلی کے شہر ٹیورن میں لوگ لاک ڈاؤن کے دوران بالکونیوں میں جمع ہو کر ایک میوزک اور لائٹس شو سے لطف اندوز ہو رہے ہیں
تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہکروڑوں لوگوں کے تنہائی میں ہونے کی وجہ سے اب زیادہ تر لوگ اس موقع کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا صارفین اپنے نئے مشاغل کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جن میں کتب بینی، بیکنگ، بُنائی اور مصوری شامل ہیں۔واشنگٹن میں قائم ڈی سی پبلک لائبریری ان لائبریریوں میں سے ہے جنھوں نے ایک ورچوئل بک کلب قائم کیا ہے جبکہ اٹلی سے تعلق رکھنے والے مایہ ناز شیف ماسیمو بوتورا نے انسٹاگرام پر کچن قورنٹین نامی سیریز شروع کی ہے جہاں گھر پر پھنسے افراد کو بنیادی ترکیبیں سکھائی جا رہی ہیں۔امریکی ریاست ٹینیسی کی ایک آرٹ ٹیچر ان بچوں کے لیے انٹرنیٹ پر کلاسیں دے رہی ہیں جو سکول نہیں جا سکتے، یوں وہ بچوں کو گھر پر ہی اپنی تخلیقی صلاحیتیں نکھارنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔
اور یوں تو کئی عوامی مقامات بند ہوچکے ہیں مگر آرٹ کے شائقین دنیا کی بڑی آرٹ گیلریوں کے آن لائن ٹورز کر رہے ہیں اور اپنے اپنے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر پیرس کے لوور میوزیم اور ویٹیکن میوزیم کی سیر کر رہے ہیں۔آسٹریلیا کی سڈنی آبزرویٹری نے بھی گھروں میں پھنسے لوگوں کو ستاروں کا دورہ کروایا۔