ہم بھی تو ذمہ دار ہیں
عالمانہ جہالت، سیاسی شرافت اور طبقاتی ذلالت کے بیچ پھنسے بائیس کروڑ انسان منافقت کے سمندروں میں غوطہ زن ہیں۔ ہر غلطی کا ذمہ دار حکومت کو ٹہرا کر خود اطمینانی تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ من الحیث القوم منافقت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ معاشرہ اگر تنزلی کا شکار ہے تو کہیں نہ کہیں ہم اور آپ بھی تو ذمہ دار ہیں۔
سگنل توڑنے، غریب کا حق مارنے، بچوں پر ظلم و ستم، رشتوں اور تعلق کی اہمیت، بزرگوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت، رشوت دینے، ظلم سہنے، آواز اٹھانے، انصاف کرنے، تحمل، برداشت، رواداری، اخلاق، شائستگی، وضعداری، انصاف یہ سب حکومتوں کے نہیں، ذاتی اوصاف ہوا کرتے ہیں۔ کوئی معاشرہ کتنا ہی مذھبی کیوں نہ ہو انسانیت سے عاری ہے تو غول بیابانی ہی کہا جا سکتا ہے۔ جہاں اجتماعی مفاد پر ذاتی مفاد کی ترجیح دی جائے تو پھر یہی کچھ ہوا کرتا ہے
جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ کبھی خود سے بھی بات کرنی چاہیئے، من میں اتر کر اپنا احتساب، اپنے آپ کی تلاش، بہت سارے جوابات تو ہماری ذات میں چھپے ہیں۔ آج اگر معاشرہ کرختگی، بیزاری، بے حسی بلکہ درندگی کی تصویر بنتا جا رہا ہے تو اسکا جواب بھی ہمارے اندر کہیں نہ کہیں موجود ہے، دبیز دھند کا دوشالا اوڑھے ہمارا ضمیر کبھی کبھار خواب غفلت سے اٹھکر انگڑائی لیتا ہے تو تھپک تھپک کر اسے دوبارہ سلا دیتے ہیں، کبھی کبھار ضمیر کی سن لیا کریں تو کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
معاشرے کی خرابی ایک بڑا سوال، سارے نہیں تو کچھ جوابات میرے اور آپ کے اندر بھی موجود ہیں، حکومتوں کو گالیاں دینے سے بہتر ہے ’کچھ‘ کو بہتر کر لیں، معاشرہ خودبخود سدھر جائیگا، احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا ہے
ظالموں کی عجیب منطق ہے
آسمان سے وبال آتے ہیں