بیلاروس: یورپ کا واحد ملک جو کورونا وائرس سے پریشان نہیں ہے 

0329202012

یورپ اب کورونا وائرس کی عالمی وبا کا مرکز بن چکا ہے لیکن اسی براعظم پر ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں حکام عوام کو اپنے روز مرہ کی زندگی کے معمولات کو تبدیل نہ کرنے کی ہدایات دے رہے ہیں۔

بیلاروس کئی اعتبار سے ایک انوکھا ملک ہے۔ یہ یورپ کے دیگر ملکوں اور اپنے قریب ترین ہمسایہ ممالک، یوکرین اور روس، سے بہت مختلف رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

یوکرین ہنگامی حالت نافذ کرنے والا ہے جبکہ روس میں سکول بند کر دیے گئے ہیں، بڑے اجتماعات پر پابندی ہے اور ملک میں آنے اور جانے والی تمام پروازوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب بیلاروس میں کئی لحاظ سے زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔

بیلا روس کی سرحدیں کھلی ہیں، لوگ اپنے کاموں پر جا رہے ہیں اور سراسیمگی کے عالم میں کوئی ٹوائلٹ پیپر خرید کر ذخیرہ نہیں کر رہا۔
بیلاروس کے صدر الیگزیندر لوکاشنکو کہتے ہیں کہ ملک کو کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کوئی احتیاطی اقدامات اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ملک کے دارالحکومت منسک میں چین کے سفیر کے ساتھ ایک ملاقات میں انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دہشت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہا ہے کہ ’واقعات ہوتے رہتے ہیں۔‘

بیلا روس نے سنیما ہال اور تھیٹر بند نہیں کیے ہیں اور اجتماعات پر پابندی بھی نہیں لگائی ہے۔ دنیا بھر میں یہ واحد ملک بچا ہے جس نے اپنے فٹبال مقابلے منسوخ نہیں کیے ہیں۔

بیلا روس کی پریمیئر شپ کے میچ معمول کے مطابق کھیلے جا رہے ہیں اور یہ مقابلے ہمسایہ ملک روس میں فٹ بال دیکھنے کو ترسے ہوئے شائقین کے لیے براہ راست ٹی وی پر نشر بھی ہو رہے ہیں۔

صدر لوکاشنکو کا یہ بیان کہ ’ٹریکٹر کورونا کا علاج کرے گا‘ عوامی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے اور اس کا سوشل میڈیا پر خوب چرچا ہے۔صدر لوکاشنکو کا اشارہ کھیتوں میں دیانتداری سے پوری محنت کرنے کی طرف تھا۔

لیکن بیلاروس کے بہت سے عام شہری شدید تشویش کا شکار ہیں کیوں کے انھیں علم ہے کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ منسک میں بہت سے نوجوان اور سکول کے بچے بیماری کا بہانا بنا کر چھٹیاں کر رہے ہیں۔

عوام میں پائی جانے والی تشویش کے پیش نظر کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں کلاسوں کے اوقات بدل دیے گئے ہیں تاکہ طالب علموں کو دن کے مصروف اوقات میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہ کرنا پڑے۔

منسک کی سڑکوں اور گلیوں میں کم لوگ نظر آ رہے ہیں اور لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ عمر رسیدہ افراد کو اس وبا سے زیادہ خطرہ ہے۔ لیکن لوگوں کو اس وبا کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے اس میں حکام کا بہت کم ہاتھ ہے۔
صدر لوکاشنکو کہتے ہیں کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ بیرونی ممالک سے آنے والے تمام مسافروں کا معائنہ کیا جا رہا ہے۔

ان کا دعوی ہے کہ ایک دن میں صرف دو سے تین مسافروں کو کورونا کا شکار پایا جاتا ہے اور انھیں فوراً قرنطینہ میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں سے وہ ڈیڑھ سے دو ہفتوں بعد جا سکتے ہیں۔

لوکاشنکو کا اصرار ہے کہ پریشانی اور ذہنی دباؤ بہت خطرناک ہوتے ہیں اور یہ وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ انھوں نے ملک کی خفیہ ایجنسی ’بیلاروس کے جی بی‘ کے اہلکاروں کو ہدایت کی ہے وہ افواہیں اور خوف و ہراس پھیلانے والے شرپسندوں پر نظر رکھیں۔

اب تک بیلاروس میں کورونا وائرس کے 86 مریض سامنے آئے ہیں اور کورونا وائرس میں مبتلا دو مریضوں کی موت ہو چکی ہے۔ اس بات کی سرکاری طور پر تصدیق ہو چکی ہے کہ یقیناً یہ مریض کورونا وائرس ہی کا شکار ہوئے ہیں۔
بیلاروس کئی لحاظ سے ایک انوکھا ملک ہے۔ یہ یورپ کا واحد ملک ہے جہاں اب تک موت کی سزا کا قانون موجود ہے۔ یہ یورپ کا واحد ملک ہے جہاں حکام کو کورونا وائرس کی وبا کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

غیر معمولی طور پر بیلاروس کی حزب اختلاف کے ایک سرگرم کارکن اندرے کِم جو عام طور پر حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں انھوں نے صدر کے موقف سے اتفاق کیا ہے۔

کم نے اپنے فیس بک صفحے پر لکھا کہ لوکاشنکو بالکل ٹھیک کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ملکی سطح پر قرنطینہ نافذ کرنے سے بیلاروس کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ دنیا میں سب کچھ درہم برہم ہو گیا ہے لیکن بیلاروس دنیا کا واحد ملک ہے جہاں حکومت عوام میں مقبول اقدامات کے بجائے ان کے لیے خیر کی تمنا کرتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں علم ہے کہ ایسا کہنے پر انھیں زندہ نگل لیا جائے گا لیکن وہ اس عام پاگل پن کی صورت حال میں خاموش نہیں رہ سکتے۔
’پاگل پن‘ سے ان کی مراد وہ سخت اقدامات ہیں جو باقی دنیا میں کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں اور ان کے خیال میں بیلاروس ایسا کچھ نہ کر کے عقلمندی کا ثبوت دے رہا ہے۔