کورونا وائرس سے لڑنے والے برطانیہ میں مقیم تین ڈاکٹرز جو اپنی جان کی بازی ہار گئے
ڈاکٹر حبیب زیدی ملنسار ہونے کی وجہ سے نہ صرف ساؤتھ اینڈ میں بلکہ انگلینڈ کے ڈاکٹروں اور خاص کر کراچی کے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ میں خاصے مقبول تھے.ڈاکٹر حبیب حیدر زیدی برطانیہ کے پہلے ڈاکٹر ہیں جو کووِڈ-19 (کورونا) وائرس کے مریض کا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہوئے اور پھر اپنی جان کی بازی بھی ہار گئے۔ وہ ساؤتھ اینڈ میں سرجن تھے۔
حبیب حیدر زیدی تقسیمِ ہند سے پہلے انڈیا کے شہر لکھنؤ میں 1943 میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد اپنے ماں باپ کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر گئے اور کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔ کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے انھوں نے ایم بی بی ایس کیا۔ انھوں نے کچھ عرصہ وہاں کے مقامی ہسپتال میں بھی کام کیا تھا۔
سنہ 1959 میں وہ کراچی سے ہجرت کر کے انگلینڈ آ گئے۔ انگلینڈ آنے کے بعد انھیں ایک جنرل پریکٹس میں پہلی ملازمت ساؤتھ اینڈ نامی علاقے میں ملی اور وہ وہیں کے ہو رہے۔ انھوں نے اپنی ہی ایک پاکستانی رشتہ دار سے شادی کی اور وہ بھی ان کے ساتھ وہیں رہیں۔
ان کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ڈاکٹر عباس حیدر زیدی شامل ہیں۔ پورا خاندان شعبہ طِب سے ہی وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر زیدی کی بیوہ طلعت زیدی ایک ڈاکٹر ہیں اور وہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں۔ ان کے سوگواروں میں ان کے بھائی سراج حیدر زیدی اور ضیا حیدر زیدی سمیت دیگر رشتہ دار بھی شامل ہیں۔
ساؤتھ اینڈ کے ڈاکٹر زیدی کے دوستوں کا ایک وسیع حلقہ ہے، لیکن وہ وائرس کی وجہ سے ان کی تدفین میں شرکت نہیں کرسکا۔ ڈاکٹر حبیب زیدی ملنسار ہونے کی وجہ سے نہ صرف ساؤتھ اینڈ میں بلکہ انگلینڈ کے ڈاکٹروں اور خاص کر کراچی کے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے گریجوایٹس میں خاصے مقبول تھے۔
وہ اکثر سماجی اور مذہبی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے۔ ساؤتھ سینڈ میں 1970 میں محرم کے عشرے کے بعد پہلی اتوار کو سالانہ مجلسِ عزا کا بھی سلسلہ قائم کیا تھا جو اب تک جاری ہے۔
ڈاکٹر حبیب زیدی نے ساؤتھ اینڈ کے ایک علاقے لی آن سی پر گذشتہ 45 برسوں سے ایک جی پی (جنرل پریکٹیشنر) کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنی سرجری (کلینک) بھی قائم کی تھی۔ اور سرکاری ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہاں کام کرتے رہے۔
وہ کووِڈ-19 وائرس کی وبا کی وجہ سے ہفتے بھر کے لیے قرنطینہ میں چلے گئے تھے۔ لیکن کام کرنے کے جذبے کی وجہ سے پھر کلینک چلے آئے تھے۔ اسی سرجری میں انھیں ایک مریض سے کووِڈ-19 وائرس کا انفیکشن ہوا۔ انھیں فوراً ہسپتال داخل کرایا گیا تھا لیکن دو روز کے بعد ہی یعنی 25 مارچ کو انُ کا انتقال ہوگیا۔
سارہ زیدی کے مطابق ڈاکٹر زیدی کی حالت اور علامتیں بتا رہیں تھیں کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہو گئے تھے. ان کی ایک بیٹی ڈاکٹر سارہ زیدی جو خود بھی ایک جی پی ہیں، نے کہا ہے کہ ڈاکٹر زیدی کی حالت اور علامتیں بتا رہیں تھیں کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے تھے۔ان کی بیٹی نے بتایا کہ ’جس طرح ان کے ساتھ ہوا ہے اور ان کی جیسے موت ہوئی ہے وہ ہماری برداشت سے باہر ہے۔ یہ ان کی قربانی کا جذبہ ظاہر کرتی ہے۔ وہ اپنے کام سے نہایت پیشہ وارانہ وابستگی رکھتے تھے۔‘ ڈاکٹر سارا زیدی نے مزید کہا کہ ’اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ (اُن کے والد) کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوئے ٹیسٹ سے تصدیق تو ایک رسمی سی اکیڈمک کارروائی ہے۔‘
’ان کے جانے کی وجہ سے ہمارے دلوں پر ایک گہرا صدمہ لگا ہے۔ پوری کمیونٹی نے ان کے چلے جانے کی تکلیف کو محسوس کیا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی یہاں کے لوگوں کے لیے وقف کردی تھی۔‘
ساؤتھ اینڈ کونسل کے لیڈر این گلبرٹ نے ڈاکٹر زیدی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ڈاکٹر زیدی کے انتقال کی خبر سے ہمیں بہت صدمہ ہوا ہے۔ یہاں کی مقامی کمیونٹی میں وہ اور ان کا پورا خاندان نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔‘
دو برس قبل ڈاکٹر حبیب زیدی کو ساؤتھ اینڈ کے این ایچ ایس کمیشننگ گروپ نے حسنِ کارکردگی کا ایوارڈ دیتے ہوئے ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ایک تاریخی شخصیت تھے اور ان کا سٹاف اور ان کے مریض ان کا بہت احترام کرتے تھے۔‘
سوڈانی نژاد سرجن عادل الطیار: برطانیہ میں قومی سطح پر صحت کے ادارے این ایچ ایس سے وابستہ کورونا وائرس کے انفیکشن سے ہلاک ہونے والے ڈاکٹر عادل الطیار پہلے شخص ہیں۔ وہ پیوند کاری کے سینئر کنسلٹنٹ تھے۔
برطانیہ آنے سے پہلے سوڈانی نژاد ڈاکٹر الطیار سعودی عرب اور سوڈان سمیت دنیا کے کئی ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ انھوں نے لندن کے سینٹ میری اور سینٹ جارجز ہسپتالوں میں بھی کام کیا تھا۔ ان کے خاندان کے مطابق ان کی موت مغربی لندن کے علاقے آئزلورتھ کے ویسٹ مڈل سیکس یونیورسٹی ہسپتال میں 25 مارچ کو ہوئی۔
سوڈان میں برطانیہ کے سفیر اور بی بی سی کی سینئیر صحافی زینب بداوی نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ وہ زینب بداوی کے قریبی عزیز بھی تھے۔ مارچ کے وسط سے کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد تریسٹھ برس کے ڈاکٹر عادل الطیار خود سے قرنطینہ میں چلے گئے تھے۔20 مارچ کو انھیں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں ان کا ٹیسٹ مثبت نکلا۔ ان کے ایک عزیز ڈاکٹر ہشام الخِدیر نے بتایا کہ اس کے بعد انھیں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں رکھا گیا۔ ڈاکٹر الطیار کے بیٹے کو خدشہ تھا کہ ان کے والد ’بچ نہیں پائیں گے۔ کیونکہ یہ بیماری بہت خطرناک ہے۔ اور یہ بیماری آئندہ آنے والے دنوں میں کئی گھروں میں صدمے لائے گی۔‘
ان کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ ’عادل ایک زبردست شخص تھے۔ اپنے گھر میں ایک مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ اور وہ اپنے دوستوں اور مریضوں میں بہت مقبول تھے۔‘ ڈاکٹر الطیار نے یونیورسٹی آف خرطوم سے سنہ 1982 میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ پھر 1996 میں وہ برطانیہ منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے یونیورسٹی آف ویسٹ لندن میں مزید تعلیم حاصل کی۔
انھوں نے پیوندکاری کے ایک سرجن کے طور ہر لندن کے معروف علاقے ٹوٹنگ کے ہسپتال، سینٹ جارجز میں کام کیا۔ اس کے بعد سنہ 2007 میں وہ سعودی عرب منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے تین برس تک جدہ کے شاہ فہد جنرل ہسپتال میں کام کیا۔
ڈاکٹر الطیار سنہ 2011 میں سوڈان منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے خرطوم کے ابنِ سینا ہسپتال میں پیوندکاری کے شعبے کو بنانے میں مدد کی۔ اس کام کو انجام دینے کے بعد وہ دوبارہ لندن کے سینٹ جارجز ہسپتال سے روزانہ اجرت کی بنیاد پر وابستہ ہو گئے۔
ان کے ایک ساتھی اور سینئر کنسلٹنٹ سرجن ڈاکٹر عباس غضنفر نے کہا کہ ’ڈاکٹر الطیار ایک نیک دل انسان تھے۔ ’الطیار بہت محنتی شخص تھے اور انھوں نے اپنے آپ کو اپنے پیشے کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ وہ ایک بہترین کولیگ تھے اور ان میں انکساری اور عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔‘
ڈاکٹر الطیار کے عزیز ڈاکٹر ہشام کا خیال ہے کہ بیمار ہونے سے پہلے وہ مڈلینڈ کے ایک ہسپتال میں کام کر رہے تھے اور انھیں یقین ہے کہ ڈاکٹر الطیار کو اسی جگہ سے انفیکشن لگا ہے۔
زینب بداوی ایک بہترین ڈاکٹر تھے اور اپنے خاندان اور بچوں سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ’اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ بہت برا ہونے والا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔‘
زینب بداوی نے مزید کہا کہ ’ایک ہفتے بعد انُ کی حالت تیزی سے خراب ہونے لگی اور سانس میں دشواری پیدا ہونے لگی۔ انھیں اس کا مطلب معلوم تھا۔ ان کے بچوں نے انھیں ہسپتال لے جانے ہر اصرار کیا۔‘’وہ اہنے قدموں پر چل کر ہسپتال گئے۔ ہسپتال میں داخلے کے بعد انھیں وینٹی لیٹر ہر ڈال دیا گیا۔‘
زینب بداوی کے بقول ڈاکٹر الطیار نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اپنے آپ کو صف اوّل میں رضاکارانہ طور ہر پیش کیا تھا اور بالآخر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
دوسرے سوڈانی نژاد ڈاکٹر: کووِڈ-19 کے انفیکشن سے ہلاک ہونے والے برطانیہ کے دوسرے ڈاکٹر بھی مسلمان ہیں۔ ڈاربی شہر کے قریب برٹن کے علاقے میں کیوئینز ہسپتال کےسینئیر کنسلٹنٹ ڈاکٹر امجد الحورانی کا انتقال اتوار کو ہوا۔
ڈاکٹر الحورانی یونیورسٹی ہسپتال ڈاربی اور برٹن کے کان، ناک اور گلے (ENT) کے کنسلٹنٹ تھے۔ کورونا وائرس کے انفیکشن کے بعد انھیں لیسٹر کے ہسپتال میں علاج کے لیے منتقل کردیا گیا تھا جہاں ان کا اتوار کو انتقال ہوگیا۔
سوڈانی نژاد ڈاکٹر الحورانی کے اہلِ خانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ’مہربانی اور ہمدردی کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ ایک محبت کرنے والے شوہر، بیٹے، باپ، بھائی اور دوستوں کے دوست تھے۔ ان کی زندگی میں ان کا خاندان اور ان کا پیشہ ہی سب کچھ تھا۔ اور انھوں نے اہنی پوری زندگی ان دونوں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ڈاکٹر الحورانی اپنی عمر کی پچاسویں دہائی کے وسط میں تھے۔
انھوں نے برٹن کے کوئینز ہسپتال اور گیبون بوئیلز میں چیف ایگزیکٹو ہوسپیٹل ٹرسٹ کی حیثیت میں کام کیا۔ وہ اپنے حلقے میں اپنے مریضوں کے ساتھ پر عزم وابستگی اور محبت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔