کورونا وائرس: دنیا میں لاک ڈاؤن کے انوکھے اور تخلیقی طریقے
سربیا کی حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران ’کتوں کی واک‘ کے لیے رات آٹھ سے نو بجے تک ایک گھنٹے کی اجازت دی تھی تاہم بعد میں اسے ختم کر دیا گیادنیا بھر کے ملک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بے مثال اقدامات کر رہے ہیں جن میں سے چند ممالک میں سخت پابندیاں اور کچھ ممالک میں کیے جانے والے اقدامات خاصے نرم ہیں جبکہ بعض ممالک میں انتہائی تخلیقی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ہم نے کوویڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ ممالک میں اٹھائے گئے غیر معمولی اقدامات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
پانامہ وسطی امریکہ کے اس ملک میں اب تک کورونا وائرس کے ایک ہزار مصدقہ کیسز سامنے آ چکے ہیں اور یہاں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لوگوں کو صنف کی بنیاد پر علیحدہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
بدھ کے روز سے مرد اور خواتین ایک ہی وقت میں صرف دو گھنٹے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ سکیں گے اور ایسا بھی مختلف دنوں میں ہو گا۔پانامہ میں اتوار کے روز کسی کو بھی گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہو گیاتوار کے روز کسی کو بھی گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
وزیر سکیورٹی نے ایک پریس کانفرنں میں کہا ’یہ مکمل قرنطینہ اور کچھ نہیں صرف آپ کی زندگی بچانے کے لیے ہے۔‘
کولمبیا کے کچھ علاقوں میں لوگوں کو ان کے قومی شناختی کارڈ نمبر کے آخری ہندسے کی بنیاد پر باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر بارنکابیرمیہا میں ایسے افراد جن کے شناختی کارڈ نمبر کے آخر پر صفر، 7 یا 4 کا ہندسہ آتا ہے وہ سوموار کے روز اپنے گھر سے باہر نکل سکتے ہیں جبکہ وہ افراد جن کے شناختی کارڈ نمبر کے آخر پر 1، 8 یا 5 کا ہندستہ آتا ہے منگل کے روز گھر سے باہر جا سکتے ہیں۔ قریب موجود بولیویا میں بھی یہ ہی طریقہ اپنانے کی تجویز دی جارہی ہے۔
سربیاایک وقت پر سربیا کی حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران ’کتوں کی واک‘ کے لیے رات آٹھ سے نو بجے تک ایک گھنٹے کی اجازت دی تھی تاہم بعد میں اسے ختم کر دیا گیا۔
جانوروں کے ایک ڈاکٹر کے مطابق شام کی سیر نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے کتوں کی حالت خراب ہو سکتی ہے اور ان میں پیشاب کے مسائل اور گھروں میں بنیادی حفظان صحت کے مسائل بھی بڑھ سکتے ہیں۔
بیلاروس کے صدر الیگزیندر لوکاشنکو کے کورونا وائرس کی وبا کی جانب رویے پر کافی لوگ حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس تجویز کو کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ان کے ملک کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، انھوں نے یہ کہہ کر مذاق میں اڑا دیا کہ انھیں ’وائرس اڑتا نظر نہیں آ رہا۔‘
ایک آئس ہاکی میچ کے دوران ایک ٹی وی رپورٹر سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ میچ میں شریک لوگ ٹھیک ہیں کیوںکہ سٹیڈیم میں موجود سردی کی وجہ سے وائرس نہیں پھیلے گا۔
بہت سے یورپی ممالک کے برعکس بیلاروس نے کھیلوں کی تقریبات پر کوئی پابندی عائد نہیں کی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے اور کورونا وائرس کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
الیگزیندر لوکاشنکو کا کہنا ہے ’یہاں کوئی وائرس نہیں ہیں۔‘ آپ نے انھیں اردگر گرد اڑتے نہیں دیکھا، کیا آپ نے دیکھا ہے؟ میں بھی انھیں نہیں دیکھ سکتا۔ یہ فریج ہے۔ کھیل، خاص طور پر برف، یہاں پر یہ فریج، یہ بہترین اینٹی وائرل ہے۔‘
سوئیڈنچار ہزار پانچ سو کے قریب مصدقہ کیسز آنے کے باوجود سوئیڈن کا لاک ڈاؤن سے متعلق رویہ انتہائی نرم رہا ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ لوگ سمجھداری سے کام لیں گے اور صحیح کام کریں گے۔
اتوار کے روز 50 سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگائی گئی لیکن 16 برس سے کم عمر بچوں کے لیے سکول ابھی بھی کھلیں ہیں۔ شراب خانے اور ریستوران ابھی بھی ٹیبل سروس کی پیشکش کر رہے ہیں اور بہت سے لوگ معمول کے مطابق ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔
یہ حکمت عملی اندرون اور بیرون ملک لوگوں کی رائے کو تقسیم کر رہی ہے تاہم یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔