انڈیا پیدل گھر کو جا رہا ہے؟ وبا کے پھیلنے کا خطرہ
انڈیا میں لاک ڈاؤن کے بعد لاکھوں لوگوں کا اپنے گاؤں کی طرف سفر کرنے سے وبا کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ گوتم لال مینا اس وقت گجرات سے راجھستان اپنے گاؤں کے گھر میں آیا تھا، جہاں وہ ایک مستری کا کام کرتا ہے۔
بڑھتی گرمی میں گوتم جوتے پہنے پکی سڑک پر چل رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پانی اور بسکٹ پر گزر بسر کرتے ہیں۔ گوتم مینا گجرات میں ایک دن میں 400 روپے (5.34 ڈالر) تک کما لیتے تھے اور اس کا بڑا حصہ وہ گھر بھیج دیتے۔
کورونا وائرس کی وبا کے یش نظر 24 مارچ سے جب انڈیا نے 21 دن کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، اس کے بعد سے بہت سے لوگوں کے لیے کام کاج اور محنت مزدوری کے مواقع ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ انڈیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ہزار سے زائد بنتی ہے جبکہ 27 افراد اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ تمام ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے گوتم مینا کو اپنے گھر کی طرف یہ سفر پیدل ہی طے کرنا پڑا۔
اپنی غصیلی آواز میں گوتم مینا نے بتایا: میں دن رات پیدل چلتا رہا۔ میرے پاس کیا آپشن تھا؟ میرے پاس بہت کم پیسے اور کھانے کو تقریباً کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن گوتم اس مصیبت میں اکیلے نہیں تھے۔ انڈیا میں بڑے شہروں کو ہجرت کرنے والے کئی لاکھ مزدور بند شہروں کو چھوڑ کر اپنے اپنے گاؤں کی طرف واپس نکل گئے۔
یہ مزدور بڑے شہروں کی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گھروں کی تعیمر کرنا، کھانا بنانا، ریستوران میں کام کرنا، تیار کھانے ادھر ادھرپہنچانا، بال کاٹنا اور سیلون کی خدمات سر انجام دینا، آٹو موبائیل کی صنعت میں کام سے لے کر ٹوائلٹ کی صفائی اور دوسرے کاموں کے علاوہ اخبارات کی ترسیلات کو یقینی بناتے ہیں۔
اپنے گاؤں کی غربت سے بھاگ کر آئے ہوئے اندازے کے مطابق ان دس کروڑ مزدوروں کی بڑی تعداد تنگ علاقوں میں گندے گھروں میں رہتی ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے خواب دیکھتی ہے۔
گذشتہ ہفتے کے لاک ڈاؤن نے انھیں راتوں رات پناہ گزین بنا کر رکھ دیا۔ان کے کام کی جگہیں بند ہوگئیں اور زیادہ تر ملازمین اورٹھیکیدار جو انھیں ادائیگی کرتے تھے، اب وہ خود جا چکے ہیں۔ مردوں، خواتین اور بچوں نے گذشتہ ہفتے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ وہ اپنے ضروری سامان کو عام تھیلوں میں سمیٹ کر لے آئے۔ ان میں خوراک، پانی اور کپڑے بھی شامل ہیں۔ نوجوان مردوں نے ان تھیلوں کو اٹھا رکھا تھا۔ جب بچے چلتے چلتے تھک جاتے تو ان کے والدین انھیں کاندھوں پر اٹھا لیتے۔
انھوں نے دن کو دھکتی دھوپ اور رات کو چمکتے ستاروں کی چاندنی میں اپنا سفر طے کیا۔ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو رہے تھے اور انھیں یہ ڈر تھا کہ وہ کہیں فاقوں پرمجبور نہ ہو جائیں۔
یہ عجیب مناظر بڑی حد سنہ1947 میں انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے بعد خون ریز ہجرت سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اُس وقت کئی لاکھ لوگ مشرقی اور مغربی پاکستان کی طرف آناً فاناً ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہ وہ ہجرت تھی جس سے ڈیڑھ کروڑ لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ دیہات میں انہیں تحفظ کا احساس زیادہ ہوتا ہے.اس بار اپنے ہی ملک میں لاکھوں لوگ اپنے گھروں کی طرف جانے کے لیے بے چین ہیں۔ راستے میں بھوک اور مشکلات کے باوجود یہ اپنے آبائی علاقوں تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ان کے مطابق گاؤں ان کے لیے خوراک اور آرام کا ذریعہ ہے۔
اس وبا کی روک تھام کے لیے کیے جانے والا لاک ڈاؤن ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ ہجرت کرنے والے ان افراد میں ایک 90 سال کی بوڑھی عورت بھی شامل ہے، جس کا خاندان دلی کے نواحی علاقے میں ٹریفک سگنلز پرکھلونے فروخت کیا کرتا تھا۔
کاجودی 100 کلو میٹر کے فاصلے سے اپنے خاندان کے ساتھ راجھستان میں اپنے آبائی علاقے کی طرف پیدل سفر طے کر رہی تھیں۔ کاجوری راستے میں بھوک مٹانے کے لیے بسکٹ اور سگریٹ نوشی کے طو پر استعمال ہونے والی بیڑی کھا کر گزارا کر رہی تھیں۔
پیدل چلنے والوں میں ایک پانچ سال کا بچہ بھی شامل ہے، جو اپنے والد کے ساتھ دلی سے اپنے آبائی گھر مدھیا پردیش پہنچنے کے لیے سات سو کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنے کے لیے چل نکلا ہے۔ اس بچے کا باپ ایک دیہاڑی دارمزدور ہے۔
بچے کے باپ نے صحافی برکھا دت کو بتایا کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو ہم پیدل سفر روک کر سو جاتے ہیں۔ ان میں سے ہی ایک خاتون اپنے شوہر اور ڈھائی سال کی بچی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا تھیلا کھانے کی اشیاء، پانی اور کپڑوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس والد نے بتایا کہ انہیں ٹھہرنے کو جگہ تو مل جاتی ہے لیکن کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
اس کے بعد ایسے ہی ایک 26 برس کے مسافر راجنیش سے ملاقات ہوئی، جو آٹوموبائیل کی صنعت سے وابستہ ہے اور اتر پردیش میں اپنے آبائی گھر کے لیے وہ 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ سفر طے کرتے ہوئے چار دن لگ جائیں گے۔
ماضی میں بھی بحرانی حالات میں لوگوں اسی قسم کی ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں. اس مزدور نے برکھا دت کو بتایا کہ اس سے قبل کہ کورونا وائرس ہم پر حملہ آور ہو ہم تو چلتے چلتے ہی مر جائیں گے۔
وہ شخص مبالغہ آرائی نہیں کر رہا تھا۔ گذشتہ ہفتے تین سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے دلی سے مدھیا پردیش پہنچنے والے 39 برس کے ایک شخص کے سینے میں درد ہوا اور وہ پھر اس تھکاوٹ سے ہی مر گیا۔ اسی طرح 62 سال کا ایک شخص گجرات میں ہسپتال سے پیدل واپس گھر کے باہر پہنچا تو وہیں مر گیا۔
چار مسافر جو گجرات سے راجھستان جا رہے تھے، راستے میں ایک ٹرک ان پر چڑھ گیا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ خدشہ ہے کہ اس بڑے پیمانے پر ہجرت سے وبا مزید پھیل سکتی ہے. جیسے جیسے یہ بحران مزید سنگین ہو رہا ہے، صوبائی حکومتیں ٹرانسپورٹ، رہائش اور خوراک کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
لیکن ان لوگوں کو ان کے گاؤں پہنچانا ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ جیسے ہی دلی کے بس ٹرمینل پر بسیں آئیں تو ہزاروں مسافروں کو ان پر سوار کر دیا گیا۔ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے لوگوں سے کہا کہ وہ دارالحکومت سے باہرنہ جائیں۔ انھوں نے لوگوں کو کہا کہ وہ جہاں ہیں، ادھر ہی ٹھہرے رہیں، کیونکہ زیادہ بڑے اجتماعات سے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ان لوگوں کا کرایہ ادا کرے گی اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے 568 فوڈ سینٹرز قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم مودی کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے آپ کو جو مشکلات درپیش ہیں ان پر وہ معذرت چاہتے ہیں، تاہم یہ سخت اقدامات اس وبا کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے ضروری تھے۔
جو بھی وجہ ہو وزیر اعظم مودی اور صوبے شہروں سے اس بڑے پیمانے پر انخلا کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ وزیر اعظم نے بیرون ملک پھنسے شہریوں کو خصوصی پروازوں سے واپس لانے کے لیے خاصی تیزی دکھائی لیکن انہوں نے انڈیا کے اندر شہریوں کو مشکلات میں ہی چھوڑ دیا۔
بحران کے دوران گھروں کو واپس جانا ایک فطری عمل ہے۔ جس طرح بیرون ملک پھنسے طلبا، سیاح اور زائرین واپس آنا چاہتے ہیں بالکل اسی طرح ملک کے اندر بڑے شہروں میں کام کرنے والے لوگ گاؤں میں اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔
ماضی میں بھی شہروں سے اس طرح بڑے پیمانے پر انخلا کی مثالیں ملتی ہیں۔ سنہ 2005 میں سیلاب کے بعد بہت سے مزدور شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ سنہ 1918 میں ہسپانوی فلو کے پیش نظر ممبئی جو اس وقت بمبئی کہلاتا تھا، اس کی آدھی آبادی یہاں سے ہجرت کر گئی تھی۔
فرینک سنوڈن نے اپنی کتاب اپیڈیمکس اینڈ سوسائٹی (وبا اور معاشرہ) میں لکھا ہے کہ سنہ 1994 میں بھی مغربی انڈیا کے صنعتی شہر سورت میں جب وبا پھوٹی تو بڑے پیمانے پر لوگوں نے ہجرت کی تھی۔ سنہ 1896 میں ایسی ہی ایک وبا کے پھوٹنے سے بمبئی کا آدھا شہر خالی ہو کر صحرا کا منظر پیش کر رہا تھا۔
ڈاکٹر سنوڈن کے مطابق برطانوی راج کی طرف سے سخت ظالمانہ قوانین کے تحت بڑے پیمانے پر ڈنڈے کے استعمال سے صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان کے مطابق اس سے بمبئی میں تو وبا پر قابو پانے میں مدد ملی لیکن شہر چھوڑ کر جانے والے اس وبا کو اپنےساتھ لے گئے جس سے یہ ہر طرف پھیل گئی تھی۔ ایک صدی کے بعد آج پھر انڈیا میں ہر طرف ایسا خوف پھیلا ہوا ہے۔
لاکھوں لوگ پیدل یا بھری بسوں میں اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے۔ وہاں وہ مشترکہ خاندان والے گھروں میں منتقل ہو جائیں گے، جہاں اکثر ان کے بوڑھے والدین بھی رہ رہے ہوتے ہیں۔ حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کی نو ریاستوں کے 56 ضلعوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی ہے۔ جوں جوں یہ ہزاروں لوگ اپنے گھروں کو پہنچیں گے یہ مقامات بھی اس وبا سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
دلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے ایک سینیئر محقق پارتھا مکھو پاداھیا کا کہنا ہے کہ ان 56 اضلاع میں 35 ہزار ویلج کونسل کو حساس قرار دے کر وہاں وائرس کے ٹیسٹ کیے جائیں اور جن لوگوں میں اس وائرس کی تشخیص ہو انھیں مقامی ہسپتالوں اور سہولیات میں علیحدہ رکھا جائے۔انڈیا کو لاک ڈاؤن سے جو نقصان پہنچے گا اس کا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے، تاہم اس دوران بے گھر افراد ان اقدامات سے بری طرح متاثر نہ ہوں۔
ڈاکٹر سنوڈن کے مطابق کامیابی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی سے پہنچنے والے نقصان کو کیسے احتیاط سے قابو کیا جاتا ہے اور اس بارے میں عوام کی رائے کو کیسے ہموار کیا جاتا ہے۔ اگر اور کچھ نہ بھی ہو تو ایسے میں مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑ ہی سکتا ہے، جس میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی کشیدگی بھی شامل ہے۔
انڈیا نے لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والوں کے لیے 22 ارب ڈالرز کے معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ریاستیں شہروں سے لوگوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوتی ہیں یا انھیں شہروں میں کھانے پینے، خوراک کی سہولیات اور پیسے دے کر ٹھہرا سکتی ہیں یا نہیں۔