گندم اور چینی بحران، رپورٹ وزیراعظم کو پیش

0405202014

ملک بھر میں گندم اور چینی کے بحران پر تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کردی گئی ہے جس میں جہانگیر ترین سمیت اہم شخصیات کے ناموں کی فہرست بھی شامل ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف آئی ایے کی جانب سے گندم اور چینی کی پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گندم کے بحران کی بڑے وجہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے پلاننگ نہ ہونا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ نے 20-22دن تاخیر سے گندم جمع کرنا شروع کیا گیا جس کے باعث پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ فلور ملز کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوا۔
فلور مل مالکان نے پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی پورا نہ کرسکنے کی اہلیت کو جانتے ہوئے فائدہ کمانے کیلئے مہم چلائی جس پر پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے لئے طریقہ کار بنانے میں ناکام رہا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے صورتحال کے پیش نظرفیصلے نہیں لئے جبکہ پنجاب میں گندم ٹارگٹ پورا نہ کر سکنے کی ذمہ داری سابقہ فوڈ سیکریٹری نسیم صادق، سابقہ فوڈ دائیریکٹر ظفر اقبال پر عائد ہوتی ہے۔

پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری پر صورتحال کے پیش نظر فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں اقدامات نہ کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جبکہ سندھ میں کم گندم حاصل کرنے کی ذمہ داری کسی پر انفرادی طور پر نہیں ڈالی جا سکتی ہے تاحال سندھ کابینہ نے گندم حاصل کرنے کی سمری پر کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخواہ میں گندم خریداری کے ٹارگٹ پورے نہ کرنے پر وزیر قلندر لودھی،سیکریٹری اکبر خان اور ڈائیریکٹرسادات حسین ذمہ دار ہیں۔یاد رہے کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی سربرا ہی میں تین رکنی کمیٹی نے ملک میں گندم بحران پر تحقیقات کیں ہیں۔

دوسری جانبب چینی بحران پر ہونے والی تحقیقات کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی گئی، تحقیقاتی رپورٹ میں کئی نامور سیاسی خاندانوں کے نام شامل ہیں۔وزیراعظم کو پیش کردہ رپورٹ کے مطابق چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین نے اٹھایا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کا فائدہ اٹھایا جبکہ چودھری مونس الٰہی اور چودھری منیر پر بھی پیسے کمانے کا انکشاف ہوا ہے اور وفاقی وزیر خسرو کے رشتہ دار نے بھی آٹے چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا کیونکہ چینی کی برآمد سے ملک میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔چینی برآمد کرنے والوں نے دو طرح سے پیسے بنائے ہیں جس میں چینی پر سبسڈی کی مد میں رقم بھی وصول کی اور قیمت بڑھنے کا بھی فائدہ اٹھایا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ وقت پر فیصلے کرنے میں ناکام رہا جس کے باعث دسمبر 2018 سے جون 2019 تک چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا اور اس عرصے کے دوران کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا جبکہ موجودہ سٹاک اور ضرورت تقریبا برابر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تھوڑا سا فرق ذخیرہ اندوزوں کو قیمتیں بڑھانے کا موقع فراہم کرے گا اس لئے حکومت اس معمولی فرق بھی ختم کرنے کے لیے چینی درآمد کرنے کی اجازت دے۔