کورونا اور تعلیم کا پہیہ
کوویڈ-19 کی وبا نے جہاں دنیا بھر کی معیشت کو زبردست دھچکا لگایا ہے وہیں تعلیم کا پہیہ بھی گھومتے گھومتے رک گیا ہے۔ جنوری میں جب تعلیمی ادارے کھلے تو چین میں کورونا وائرس کی بیماری پھیلنے کی خبریں آنا شروع ہو چکی تھیں۔ اس وقت کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ بیماری ایک دن پوری دنیا کو مفلوج کر دے گی۔
جنوری سے لے کر مئی جون تک کے مہینے تعلیمی سال کا اہم ترین وقت ہے۔ نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات اور ان کی تیاری ان ہی مہینوں میں ہوتی ہے۔ چھوٹی جماعتوں، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں اور دیگر یونیورسیٹوں میں بھی یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے لیکن سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی جانے والے طلبہ کے لیے اہم ترین۔
جب چھٹیوں کا اعلان کیا گیا تو اس وقت اکثر سکولوں میں سینڈ اپس یا موکس کے امتحانات جاری تھے۔ میٹرک کے امتحانات اور انٹرمیڈیٹ کے طلبا کی تیاری بھی عین منج پہ تھی۔ ٹیوشن سنٹرز کے سامنے سڑکیں بھری ہوئی تھیں اور گھر گھر بچے سر جھکائے، کتابوں میں منہ دیئے آنے والے امتحانوں کی تیاری میں محو تھے۔ چھٹیاں ہوئیں اور وزیر تعلیم نے وضاحت کے ساتھ کہہ دیا کہ جون تک پاکستان میں کوئی امتحان نہیں ہو گا۔
زیادہ پریشان کیمبرج سسٹم اور دیگر بیرونی اداروں کے تحت امتحان دینے والے طلبا تھے۔ وزیر تعلیم صاحب نے واضح کیا کہ کوئی بھی بیرونی ادارہ حکومت کے حکم کے بغیر امتحان نہیں لے سکتا۔ یہ بہترین قدم تھا۔ جون تک بات واضح ہو گئی۔
بہار کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد آن لائن کلاسز شروع ہو گئیں۔ تعلیمی سال کو کسی طرح گھسیٹنے کا سلسلہ جاری ہوا۔ اس میں بھی کئی قباحتیں تھیں۔ ہر مضمون آن لائن نہیں پڑھایا جا سکتا، خاص کر سائنسی مضامین۔
بہت سے اساتذہ آن لائن پڑھانے سے کچھ خاص واقف بھی نہیں تھے۔ انٹرنیٹ کی فراہمی اور سپیڈ کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ مگر آن لائن کلاسز جاری ہیں۔
سرکاری سکولوں کے بچوں کو آن لائن تعلیم کی سہولت میسر نہیں ہے۔ انھیں فی الحال یہ چھٹیاں گرمیوں کی چھٹیوں کی جگہ دی گئی ہیں اور 31 مئی کے بعد سکول اسی طرح کھولے جائیں گے جیسے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کھولے جاتے ہیں۔
اب تازہ ترین پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ کیمبرج یونیورسٹی نے طلبا کو دو راستے دیئے ہیں یا تو، سکول میں دیئے گئے سابقہ امتحانات کے مطابق نمبر لگوا لیں اور یا اکتوبر نومبر میں امتحان دے لیں۔ یہ خاصا شش و پنج میں ڈال دینے والا مرحلہ ہے۔ بچوں کی اکثریت، سکول کے امتحانات کو اس طرح سنجیدہ نہیں لیتی۔ موکس ہوئے ہی نہیں۔ اس سے پہلے تک ہونے والے امتحانات اور چار مہینے کی جان توڑ تیاری کے بعد ہونے والے امتحانات کے نتائج میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
دوسری صورت میں کچھ خبر نہیں کہ اکتوبر نومبر میں ہونے والے امتحانات بھی ہو پاتے ہیں یا نہیں کیونکہ انگلینڈ میں بھی پوری دنیا کی طرح یہ وبا پھیلی ہوئی ہے۔ نیز اگر حالات سنبھل بھی جاتے ہیں اور مئی تک سب کچھ معجزانہ طور پہ درست ہو بھی جاتا ہے تب بھی خاص کر ایف ایس سی اور اے لیولز کے بچوں کے لیے معاملہ بہت مبہم ہو رہا ہے۔
انٹرمیڈیٹ کے بچوں کو بھی اڑتی اڑتی خبر یہ ہی مل رہی ہے کہ ایوریج مارکنگ کی جائے گی یا پھر بائیس جون سے امتحان لیے جائیں گے۔ دوسری طرف کورونا کے پھیلاو کا گراف کچھ اور کہانی کہہ رہا ہے۔ ان طلبا کو ای کیٹ اور ایم کیٹ بھی دینے ہوتے ہیں جن کی کے تحت ان کو میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلے ملتے ہیں۔ اسی طرح دیگر داخلہ ٹسٹ بھی ہیں۔
اس صورت حال میں بچوں کا ایک تعلیمی سال ضائع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پوری دنیا آفت کا شکار ہے لیکن چین نے جس طرح چند ماہ میں اس وبا پہ قابو پایا اس سے امید کی صورت بھی نظر آتی ہے۔انٹرمیڈیٹ اور اے لیولز وغیرہ کے بچوں کی یہ کھیپ ہم نے کہیں سے ڈاون لوڈ نہیں کی۔ سالہا سال کی محنت سے یہ نسل جوان کی ہے۔ جس طرح ملک کی معیشت اہم ہے، اسی طرح ملک کا مستقبل بھی اہم ہے۔ گو صورت حال ابھی غیر واضح ہے لیکن جس طرح جون تک امتحانات نہ لینے کا واضح فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح امتحانات کے ہونے، نہ ہونے، ایوریج مارکنگ کرنے اور نئے داخلوں کے بارے میں بھی کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ہی کوئی فیصلہ کر لے۔
بہتر تو یہ ہی تھا کہ یہ سال جہاں روکا گیا، وہیں سے مارچ دو ہزار اکیس میں شروع کر دیا جائے، لیکن یہ بھی ایک مشکل فیصلہ ہے۔ اب ایسا ہے کہ امتحان دلائیں، نہ دلائیں، سال ضائع کرائیں نہ کرائیں، ایوریج مارکنگ قبول کریں نہ کریں، فیصلے کا بار ایک مرتبہ پھر والدین کے کاندھوں پہ آ گرا ہے۔ حکومت اس وزن کو اٹھائے ماہرین کے ساتھ بیٹھ کے ایک فیصلہ کرے اور اسے نافذ کرے۔
سرکاری تعلیمی اداروں اور نجی اداروں کے طلبا کے لیے یکساں فیصلہ لیا جائے تا کہ کسی بھی طبقے کے بچے کا انفرادی سطح پہ نقصان نہ ہو۔یہ ایک اجتماعی آفت ہے اور اس سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کے، ہوش و حواس اور عمدہ حکمت عملی استعمال کر کے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب توجہ فرمائیں، لاکھوں طلبا و طالبات، والدین اور اساتذہ آ پ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔