انتہائی نگہداشت وارڈ میں حفاظتی سامان کے بغیر کام کرنے والے ڈاکٹرز کی کہانی
ویسے تو دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کی وجہ سے ہر شخص، ہر شہر، ہر ملک کو ہی اس سے خطرہ لاحق ہے مگر کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور طبعی عملہ خصوصی طور پر اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
مگر آپ کہیں گے ڈاکٹرز اور طبعی عملے کو تو عام لوگوں سے زیادہ احتیاطی تدابیر معلوم ہیں تو ان میں تو اس کا امکان کم ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اس عالمی وبا سے لڑنے والے ان فرنٹ لائن فوجیوں کے پاس ضروری حفاظتی سامان کی سخت کمی ہے۔ اس میں ہم کوئی پیچیدہ ٹیکنالوجی یا مہنگے آلات کی بات نہیں کر رہے۔ صرف ماسک، پلاسٹک کا حفاظتی لباس، وغیرہ وغیرہ۔
اور یہ کمی کسی ایک ملک میں نہیں۔ اس حوالے سے امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک سے بھی ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جہاں ڈاکٹرز اور طبی عملہ ماسک، حفاظتی لباس اور ضروری تحفظ کے سامان کی عدم دستیابی کا شکوہ کر رہے ہیں۔ اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس سے ڈاکٹرز سمیت تمام ہیلتھ کیئر عملہ متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ڈاکٹرز کی ایک ایسوسی ایشن کے حکام کے مطابق حیات میڈیکل کمپلیکس پشاور میں تعینات پروفیسر ڈاکٹر جاوید ماہر امراض ناک گلہ کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید کی حالت چند روز پپلے خراب ہوئی، جس کے بعد ان کے ٹیسٹ کیے گئے جس میں وائرس کی تصدیق کے بعد انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ صوبائی حکام نے بتایا کہ ڈاکٹر جاوید کے علاوہ خیبر پختونخوا میں سینیئر پروفیسرز سمیت 18 ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کے افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔
پاکستان میں اب تک کورونا وائرس سے جہاں کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہیں تین ڈاکٹرز بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ تازہ ترین ہلاکت ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کی ہے، جو کراچی کے علاقے گلشنِ حدید میں واقع ایک خیراتی ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ پیتھالوجی اینڈ لیبارٹری میڈیسن سے منسلک پروفیسر عفیہ ظفر نے بی بی سی کے کریم الاسلام کو بتایا کہ ہسپتالوں میں صفائی کے عملے سے لے کر لیب ٹیکنیشنز، نرسوں اور ڈاکٹرز تک جو کوئی بھی کورونا سے متاثرہ مریضوں کے ساتھ کام کرتا ہے، اُس میں وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔
عفیہ ظفر نے بتایا کہ ‘طبی عملے کا مریضوں سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کے جسم سے نکلنے والے مواد کے ذریعے وائرس اُنھیں منتقل ہو سکتا ہے۔ پیرامیڈیکل عملہ دن میں کئی کئی بار متعدد متاثرہ مریضوں کے ساتھ رابطے میں آتا ہے جس کی وجہ سے اُن میں عام لوگوں کے مقابلے میں وائرس کے حملے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔’
‘چونکہ ابھی کورونا وائرس کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں لہٰذا ہمیں وائرس کی ‘انفیکشس ڈوز’ (جراثیم کی وہ کم سے کم مقدار جو کسی انسان کو متاثر کر سکتی ہے) کے بارے میں علم نہیں۔
اور دکھ کی بات یہ ہے کہ دوسروں کی جان بچانے کے لیے خود کو داؤ پر لگانے والے، ان معلومات کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ بنیادی ساز و سامان نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز اور دیگر عملہ مکمل طور پر اپنی حفاظت نہیں کر پا رہا، جس کی وجہ سے وہ وائرس کا شکار ہو رہا ہے۔
مالاکنڈ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر وحیدگل خود بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے، مگر اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ڈاکٹر وحید گل نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ اب ٹھیک ہیں اور ان میں بظاہر کوئی علامات جیسے کھانسی یا بخار نہیں ہے تاہم ان کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور وہ اب احتیاط کریں گے۔ انھوں نے لوگوں سے بھی کہا ہے کہ وہ محدود رہیں، محفوط رہیں۔
پروفیسر عفیہ ظفر نے بتایا کہ ڈاکٹروں اور طبعی عملے کے وائرس سے متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کورونا کے اکثر مریضوں میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ جب یہ متاثرہ لوگ ہسپتالوں کے او پی ڈی میں معمول کے معائنے کے لیے جاتے ہیں تو وہ لاشعوری طور پر ڈاکٹرز اور نرسوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
پروفیسر عفیہ ظفر کے مطابق طبی عملے کے لیے مخصوص حفاظتی سامان یا پی پی ای کی موجودگی میں بھی وائرس سے متاثر ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ‘اِس سلسلے میں سب سے اہم بات اِس حفاظتی سامان کا درست استعمال ہے۔ صرف پی پی ای کا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ طبی عملہ، مریضوں کو لانے لے جانے والے افراد اور یہاں تک کہ کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کی آخری رسومات انجام دینے والے لوگ بھی پی پی ای کا درست استعمال جانتے ہوں۔’
پی ڈی اے کے ترجمان ڈاکٹر سلیم خان کے مطابق سپیشلائزیشن کی ٹریننگ کرنے والے پروونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹر امان خٹک بھی کورونا وائرس کے شکار ہو گئے ہیں اور نارتھ ویسٹ ہسپتال میں داخل ہیں البتہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں اور عملے کے دیگر افراد کے لیے حفاظتی سامان کی کمی ہے جس وجہ سے طبی عملہ متاثر ہو رہا ہے۔
صوبہ پنجاب کے شہر ملتان اور ڈیرہ غازی خان سے کورونا وائرس سے متاثرہ ڈاکٹرز کی زیادہ تعداد سامنے آئی ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن لاہور کے ترجمان ڈاکٹر عمار نے بتایا کہ اب تک ملتان میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے 18 افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ مزید عملے کے افراد کے ٹیسٹ بھیجے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان میں طبی عملے کے 12 افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر عمار کے مطابق اس وقت حکومت کی جانب سے ٹیسٹ کرنے کی شرح انتہائی کم ہے، جس وجہ سے اصل صورتحال سامنے نہیں آ رہی اور حکومت کو چاہیے کہ دس لاکھ کی آبادی میں کم سے کم دس ہزار افراد کا ٹیسٹ تو کرے جس کے بعد صورتحال واضح ہو سکے گی۔
صوبائی دارالحکومت پشاور کے مولوی جی ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر کریم میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ڈاکٹر کریم کی حالت اب بہتر ہے اور انھیں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ مولوی جی ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اختیار ولی نے بتایا کہ ان کا ہسپتال بنیادی طور پر بچوں اور زچگی کے مریضوں کے لیے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں جراثیم کش سپرے کر کے 48 گھنٹوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا اور عملے کے تمام افراد کے ٹیسٹ کرائے جا رہے ہیں اور ہسپتال پیر کی رات سے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں 16 ڈاکٹرز اور طبی عملے کے افراد اس وائرس سے اب تک متاثر ہو چکے ہیں، جن میں سات ڈاکٹرز، ایک نرس اور ایک پیرا میڈیکل سٹاف کا تعلق پشاور سے ہے۔ اس کے علاوہ دیر، ڈیرہ اسماعیل خان، بونیر، کرک، سوات اور مردان سے ایک ایک عملے کے افراد متاثر ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر عفیہ ظفر کے مطابق پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ یا پی پی ای استعمال کرنے والے اکثر ڈاکٹرز اور نرسز اِس حفاظتی سامان سے الجھن یا گرمی لگنے کی شکایت کرتے ہیں، پھر جب وہ ہسپتالوں کے شدید دباؤ والے ماحول میں کام کرتے ہیں تو بے احتیاطی کا امکان بھی رہتا ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ اُن ڈاکٹروں میں شامل تھے جنھوں نے کورونا کے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کیے اور سکھر اور حیدرآباد میں ساڑھے آٹھ سو زائد افراد کے نمونے اکھٹے کیے، ایک ساتھی ڈاکٹر کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد وہ سیلف آئسولیشن میں چلے گئے. اِس سلسلے میں وہ چین کے شہر ووہان کی مثال دیتی ہیں، جہاں کورونا وائرس کی وبا پھوٹی۔ عفیہ کے مطابق ووہان میں ابتدائی چند دنوں کے دوران پیرا میڈکل عملے کی بہت ہلاکتیں ہوئیں لیکن بعد میں اُن پر قابو پا لیا گیا۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے طبی عملے نے حفاظتی اصولوں پر سختی سے عمل نہیں کیا۔
عفیہ ظفر کا کہنا ہے کہ ‘ڈاکٹروں کی عمر اور اُن کی عمومی صحت بھی اِس سلسلے میں ایک اہم پہلو ہے۔ وہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ جو پہلے سے کسی مرض جیسا کہ بلڈ پریشر، شوگر یا جگر کے عارضے میں مبتلا ہوں یا جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں یا جن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے، اُن کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔’
عفیہ ظفر کا کہنا ہے کہ پاکستان خوش قسمت ہے کہ فی الحال یہاں کورونا وائرس نے بہت زیادہ لوگوں کو متاثر نہیں کیا ہے لیکن دوسرے ممالک کے تجربات اور ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
ان کے مطابق ’یہ ہمارے لیے بہترین موقع ہے کہ اِس دوران ہم اپنے طبی عملے کو تربیت فراہم کریں۔ ہم دوسرے ممالک کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور طبی عملے کے لیے تجویز کردہ عالمی حفاظتی اُصول یہاں بھی نافذ کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عفیہ کہتی ہیں کہ اگر ہماری تیاری اچھی ہوگی اور ہمارے فرنٹ لائن ورکرز کے پاس بہترین سہولیات موجود ہوں گی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بے شمار قیمتی جانیں نہ بچا سکیں گے۔