ملک کی بہتری کیلئے وقت پر انتخابات کا انعقاد ضروری ہے، اگلے چند دن میں نگران حکومتیں آ جائیں گی، قمر زمان کائرہ کا تقریب سے خطاب

cc

مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ملک کی بہتری کیلئے وقت پر انتخابات کا انعقاد ضروری ہے، اگلے چند دن میں نگران حکومتیں آ جائیں گی، آئندہ 90روز میں انتخابات ہو جائیں گے، پاکستان کی سب سیاسی جماعتوں نے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی توڑنے کی مخالفت کی، سب سیاسی جماعتوں نے کہا کہ ملک میں وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، پاکستان میں سیاسی کلچر کو کس نے خراب کیا؟

ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما تمام عدالتوں میں پیش ہوتے رہے، چیئرمین پی ٹی آئی پر تھوڑا مشکل وقت آیا تو کارکنوں کو اداروں کے سامنے کھڑا کر دیا، قوم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی والوں نے اداروں پر حملہ کیا، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بدولت آج ملک میں ترقی ہو رہی ہے، آئین بنانے والے سیاستدان ہیں، ہم ہی اس آئین کے محافظ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بھاشنا ، لالہ موسیٰ میں سوئی گیس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مشیر امورکشمیر و گلگت بلتستان نے کہا ہے کہ وقت پر انتخابات ملک کی بہتری کیلئے ضروری ہیں، ابھی بھی افواہیں ہیں کہ الیکشن کب ہوں گے، پہلے بھی کہا اور اب بھی کہتے ہیں کہ ملک بھر کے انتخابات ایک ہی وقت پر ہوں گے ۔ مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں بدنیتی سے توڑی گئیں، تحریک انصاف کے علاوہ تمام جماعتوں نے اس وقت بھی کہا کہ الیکشن ایک وقت پر ہونے چاہئیں۔ اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور کے پی کے وزیراعلیٰ نے بھی کہا کہ اسمبلیاں توڑنا غلط فیصلہ ہے، اس وقت بھی ہم نے کہا کہ پنجاب جو ملک کا 62 فیصد ہے اس میں پہلے الیکشن ہوتا ہے تو پورے ملک میں ایک عجیب ارتعاش ہوگا اور پہلے ہی بہت سی آوازیں ہیں اور چھوٹے صوبوں کو اعتراض ہو گا۔ پنجاب کی قومی اسمبلی میں ڈیڑھ سو نشستیں ہیں اور بلوچستان کی 17 نشستیں ہیں، اگر پنجاب میں الیکشن ہو گا تو باقی ملک کے الیکشن پر کیا اثر ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی کہتا ہوں کہ اس سے آگے جانے کا کوئی جواز اور گنجائش موجود نہیں ہے، انشاء اللہ وقت پر الیکشن ہوجائیں گے۔

قمر زمان کائرہ نے کہا کہ آج پاکستان میں عدم برداشت کا کلچر ہے، زبردستی اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جاتی ہے، عمران خان اس غیریقینی صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب لوگ عمران خان کی جماعت میں شامل ہو رہے تھے تو وہ اچھے تھے اور اب واپس آرہے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ لوٹے ہیں، تحریک انصاف کے چار سالہ دور میں وزیر خزانہ اور معاشی ٹیم کا اہم رکن آج انکشاف کر رہا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم کو معاشی صورتحال سے آگاہ کیا جاتا تو وہ سنجیدگی سے بات سننے کے موڈ میں نہیں ہوتے تھے، اس وقت کے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کہہ رہے ہیں کہ میں عمران خان کو جب سمجھاتا تھا تو وہ بات سننے کے موڈ میں نہیں ہوتے تھے اور صرف اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے، ٹیکس بڑھانے کی بات کی تو خان صاحب کہتے کہ ایسا کیا تو لوگ چھوڑ جائیں گے۔

قمر زمان نے کہا کہ شبر زیدی کہتے ہیں کہ میں نے عمران خان کو کہا کہ خان صاحب ان حالات میں الیکشن میں گئے تو لوگ ووٹ نہیں دیں گے، کیونکہ مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کے سوا کوئی کام نہیں ہوا۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم نے حوصلے اور جرات کے ساتھ کیسز کا سامنا کیا اور ڈرے نہیں لیکن اس پہلوان پر جب مقدمات کی بات آئی تو پاکستان کے صوبوں، جماعتوں کو آپس میں لڑایا، عوام کواپنی فوج کے سامنے لاکھڑا کیا، خان صاحب جلسوں میں کھڑے ہوکر لوگوں سے حلف لیتے تھے کہ میرے خلاف کیس بنایا گیا تو آپ نے ترکی کی طرح سڑکوں پر نکلنا ہے اور اپنی فوج کے خلاف کھڑے کرانے اور فوج پر حملے کرانے کیلئے نوجوانوں کو اکسایا، ٹائیگر فورس کے نام سے تنظیم بنائی اور مخصوص رنگ کی وردیاں پہنا کر انہیں پہلے پاکستان کے عوام اور سرکاری اداروں پر مسلط کیا پھر ان لوگوں کو پاکستان اور فوج کے خلاف لا کھڑا کیا، 9 مئی کے واقعات سب کے سامنے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے تھے کہ میرے پاس ہر مسئلے کا حل ہے اور کسی جماعت کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائوں گا اور آج انہی کے ساتھی کہہ رہے ہیں جب تک سب مل کر فیصلے نہیں کریں گے تو پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ خالی نعروں سے مسئلے حل نہیں ہوتے، عمران خان لوگوں کو بہکانے کیلئے جھوٹ بولتے بولتے مذہب اور نبی کریمﷺ ۖ کا نام استعمال کرتے ہوئے ریاست مدینہ بنانے کے دعوے کرتے تھے، انہوں نے سوال اٹھایا کیا ایسی ہوتی ہے مدینے کی ریاست ۔ انہوں نے کہا کہ جب عمران خان حکومت سے گئے امریکہ، یورپ ہم سے ناراض تھا۔ ہمارے علاقوں کے نوجوان بیرون ملک محنت کرتے ہیں تو ہم یہاں خوشحالی سے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک چلانے کیلئے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات بھی کئے جاتے ہیں اور سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ ہم نے اتحادیوں کو تیار کیا کہ ڈائیلاگ کیا جائے، مولانا فضل الرحمان کے پاس بھی گئے، انہوں نے بھی کہا کہ ڈائیلاگ ہونا چاہئیں لیکن جس سے ڈائیلاگ کی بات کر رہے ہیں اس میں کامیابی نہیں ہوگی، جماعت اسلامی کے پاس بھی گئے، سپریم کورٹ گئے اور چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے اپنا موقف رکھا کہ آئین بنانے والے سیاستدان ہیں اور آئین کی حفاظت بھی ہم نے کرنی ہے اور اگر غلطی ہے تو اسے بھی درست ہم نے کرنا ہے، عدلیہ نے بھی مذاکرات کا کہا اور حکومتی ٹیم نےمذاکرات بھی شروع کئے، اس بات پر بھی اتفاق ہو گیا کہ جولائی کے چوتھے ہفتے میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیں گے اور تیسری میٹنگ میں تاریخ طے ہونا تھی لیکن عمران خان نے ایک عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران اپنی مذاکراتی ٹیم کو ہدایت کردی کہ 14 مئی کو حکومت اسمبلیاں توڑتی ہے تو ٹھیک ورنہ واپس آجائیں۔