پنجاب بڑا اناج گھر کیوں نہ بن سکا؟
برصغیر کی تقسیم ہوئی تو صوبہ صرف پنجاب تقسیم ہوا، قتل و غارت صرف پنجابیوں کی ہوئی، 10 سے 15 لاکھ افراد موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔پنجاب ہی پورے برصغیر کا اناج گھر تھا، تقسیم کے بعد 17اضلاع پاکستان جبکہ 12اضلاع بھارت کے حصہ میں آئے، یوں پنجاب ٹوٹ گیا، گویا مشرقی پنجاب بھارت کو مل گیا اور مغربی پنجاب پاکستان کا حصہ بن گیا۔ہندوستان میں جاگیرداروں کی کمر توڑنے کیلئے جواہر لعل نہرو نے زرعی اصلاحات کا نفاذ فوری طور پر کردیا، افسوس پاکستان میں ایسا نہ ہو سکا۔
اِن زرعی اصلاحات کا فائدہ انڈیا کو بہت زیادہ ہوا، وہاں زمینیں کم ہونے کے باعث کاشتکار نے زیادہ محنت کی، بھارت سرکار نے کسان کو خوشحال بنانے کیلئے بجلی اور کھاد مفت فراہم کی، ہمارے ہاں یہ نہ ہو سکا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی سرکار نے پنجاب کو تین صوبوں یعنی ہماچل پردیش، ہریانہ اور پنجاب میں بانٹ دیا بلکہ چھوٹا سا صوبہ دہلی بھی دراصل پنجاب ہی تھا۔
تقسیم در تقسیم کے عمل کے باوجود بھارتی پنجاب پورے بھارت کی غذائی ضروریات کو پورا کرتا ہے جبکہ پاکستان میں حال ہی میں آٹے کا بحران پیدا ہو گیا تھا۔ خشونت سنگھ کے بقول 1962میں زرعی یونیورسٹی پنجاب قائم ہوئی، اس یونیورسٹی کے قیام کے بعد اعلیٰ بیج فراہم کیے گئے، گندم اور چاول کی پیداوار پورے پاکستان کی پیداوار سے تین گنا زیادہ ہونے لگی۔اس سے پورے بھارتی پنجاب میں خوشحالی آ گئی، پنجاب کے کسان امیر ہوگئے، امارت آئی تو سہولتیں بھی گھروں کے آنگنوں میں آ گئیں مگر اس خوشحالی میں زرعی یونیورسٹی پنجاب کے تحقیقی اور تخلیقی کام کا بڑا دخل ہے۔
میں خشونت سنگھ کی بات کو اس لئے اہم سمجھتا ہوں کہ وہ وکالت، سیاست اور صحافت کے علاوہ سرکاری ملازمت سے بھی وابستہ رہا ہے، چوٹی کا لکھاری ہونے کے باعث اس کی باتوں کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔یہ تو تھا بھارتی پنجاب کا قصہ، اب اپنا قصہ سن لیجئے، یہاں انگریز کا بنایا ہوا شاندار نظام آبپاشی موجود تھا، بارانی علاقے چھوڑ کر باقی علاقوں کیلئے نہروں کے ذریعے پانی کا بہت عمدہ بندوبست کیا گیا تھا،
مزے کی بات یہ ہے کہ جس پنجاب پر اکثر پانی چوری کا الزام لگتا ہے اس کا 60سے 70فیصد حصہ ویسے ہی نہری پانی سے محروم ہے۔وسطی پنجاب کے لوگوں کے دل کتنے بڑے ہیں کہ تمام نہریں ان کے سامنے سے گزرتی ہیں مگر وہ ان نہروں سے ایک قطرہ پانی کا نہیں لیتے بلکہ یہ پانی سندھی بھائیوں کیلئے چلا جاتا ہے۔پاکستان میں آبپاشی کے نظام کو اور بہتر کیا جا سکتا تھا مگر ایسا اس لئے نہ ہو سکا کہ یہاں منصوبہ بعد میں بنتا ہے اختلاف پہلے جنم لیتا ہے، دنیا کے کئی ملکوں کو مسائل کا سامنا رہا ہے مگر وہ ان مسائل کو حل کرتے ہیں۔امریکہ 1940میں مالیاتی بحران کا شکار تھا، وہاں غذائی قلت بھی تھی پھر امریکی صدر روزویلٹ کی خواہش پر لیلین تھال نے دریائے ٹینیسی پر درجنوں ڈیمز بنائے۔جن علاقوں میں ڈیم بنائے گئے وہ ہمارے کالاباغ کی طرح کے تھے،
قیامِ پاکستان کے بعد بھارت کو پنجاب سیراب کرنے والے دریاؤں کا پانی کھٹکنے لگا، اس نے پانی بند کیا تو ملک ابتدا ہی میں مسائل کا شکار ہونے لگا۔حکومت پاکستان نے امریکا کی تقدیر بدل دینے والے لیلین تھال کو پاکستان مدعو کیا، اس نے پاکستانی افسروں کو لیکچر دیے، وہ پاکستان کی جغرافیائی خوبصورتی، قوم کے جذبے اور لوگوں کی ایمانداری کا قائل ہو گیا۔ اس نے پاکستان کو پانی اور بجلی دونوں میں خود مختار بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت ورلڈ بینک کا صدر یوجین رابرٹ بلیک، لیلین تھال کا ذاتی دوست تھا، لیلین اسے پاکستان لے آیا، ملک فیروز خان نون وزیراعظم پاکستان تھے۔وزیراعظم نے لیلین تھال کے مشورے پر (واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی) واپڈا کو قائم کردیا، دنیا کے کئی ملکوں نے واپڈا کو کاپی کیا، امریکا اور یورپ میں 1971تک واپڈا کی مثالیں دی جاتی رہیں، 1958میں مارشل لا کے سبب جنرل ایوب خان ملک کے صدر بن گئے۔اس دوران بھارت ہمارا پانی بار بار روک لیتا تھا، حکومتِ پاکستان، بھارت کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ چاہتی تھی کہ آدھا پانی بھارت استعمال کرے اور آدھا پاکستان، اس سلسلے میں ورلڈ بینک کے صدر یو جین رابرٹ بلیک اور لیلین تھال کی رائے مختلف تھی۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرے گا، یہ پاکستان کو روزانہ بلیک میل کرے گا اس لپے پاکستان کو اس کا مستقل حل تلاش کرنا چاہئے۔
صدر ایوب یہ باتیں نہیں مان رہے تھے کہ ورلڈ بینک کے صدر نے بالآخر یہ جملہ بولا کہ ’’پھر آپ بھارت کے ساتھ طویل جنگ کی منصوبہ بندی کر لیں کیونکہ پانی کا مسئلہ جنگ کے بغیر حل نہیں ہو سکے گا‘‘۔صدر ایوب یوجین رابرٹ بلیک کی بات مان گئے اور پھر عالمی بینک نے بھارت کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر سندھ طاس معاہدہ کروا دیا۔بھارت آج بھی سندھ طاس معاہدے کو جواہر لعل نہرو کی سیاسی غلطی قرار دیتا ہے اور اسے تبدیل کروانے کی مسلسل کوشش کرتا آرہا ہے، جب سندھ طاس معاہدہ ہو گیا تو پھر پاکستان کو تین کام کرنا تھے۔ڈیم بنانا تھے، بجلی پیدا کرنا تھی اور بھارت کے حصے میں آنے والے تین دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کے زیرِ کاشت علاقوں تک نہروں کے ذریعے دریائے سندھ کا پانی پہنچانا تھا۔
ڈیم تو کیا ان تین دریاؤں کے علاقے میں نہر بھی نہ بن سکی، ایوبی دور میں غلام اسحاق خان اور غلام فاروق دو ایسے بیورو کریٹس تھے جن کو یہ کام سونپ دیا گیا کہ وہ ٹیکنالوجی کو ملک میں عام کریں۔اس دور میں بڑے بڑے منصوبوں پر کام ہوا، واہ فیکٹری، پی آئی اے اور کئی دیگر ادارے قائم ہوئے۔ یہ دور پاکستان پر قدرت کی نوازشات کا دور تھا، اسی عہد میں روزویلٹ رزلٹ ہوٹل پاکستان کا ہوا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روم میں سفارت خانوں کے علاوہ کئی عمارتیں سرکاری سطح پر پاکستان کی بنیں۔
ایوب خان کے عہد میں 7ڈیم بنے مگر کوئی ایک ڈیم بھی پنجاب میں نہ بن سکا، باقی تفصیل اگلے کالم میں لکھوں گا۔
بقول نوشی گیلانی؎
صراطِ عشق ہے اور ہجر کی تنہا مسافت ہے
وہی ہے تشنگی پھر بھی فریبِ آب زندہ ہے