روہنگیا پناہ گزینوں کی کشتی کو خلیج بنگال میں حادثہ، 16 جابحق
بنگلہ دیشی حکام کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی کشتی ملائیشیا جا رہی تھی جس میں 125 افراد سوار تھے۔حکام کے مطابق حادثے کے بعد 62 افراد ڈوبنے سے بچ گئے جبکہ باقی مسافروں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش سے فرار کی کوشش کرنے والے روہنگیا پناہ گزینوں سے کچھا کچھ بھری کشتی خلیج بنگال میں الٹنے سے کم از کم 16 افراد ڈوب گئے جن میں 14 خواتین بھی شامل ہیں۔
بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی ملائیشیا جا رہی تھی جس میں 125 افراد سوار تھے جبکہ اس پر اضافی سامان بھی موجود تھا۔یہ کشتی سینٹ مارٹن جزیرے کے قریب الٹ کر سمندر برد ہو گئی۔ جزیرے کے حکام نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ حادثے کے بعد 62 افراد ڈوبنے سے بچ گئے جبکہ باقی مسافروں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
کاکس بازار کے ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ اقبال حسین نے بتایا کہ ایک بچے سمیت ڈوبنے والوں کی لاشیں قریبی جزیرے شاہ پوریر کے ساحل پر لائی گئی ہیں۔یہ قصبہ پناہ گزین کیمپوں کا بڑا میزبان رہا ہے، جہاں مجموعی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزین آباد ہیں اور سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان 2017 میں میانمار کی فوج کی جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن کے بعد فرار ہو کر یہاں پہنچے تھے۔
اگرچہ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کو خوراک اور رہائش بین الاقوامی امداد سے مہیا کی جاتی ہے تاہم ان کیمپوں میں حالات سنگین ہوسکتے ہیں جہاں مستقبل میں ملازمت کے امکانات یا حقیقی معنوں میں تعلیم کی فراہمی کی بہت کم امید ہے۔انسانی سمگلر ان پناہ گزینوں کو بڑی رقم کے عوض بیرون ملک بہتر زندگی کا لالچ دے کر غیر محفوظ کشتیوں سے فرار کراتے ہیں۔
مسلم اکثریتی ملک ملائیشیا سفر کے لیے ان کی اہم منزل ہے جہاں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے تناظر میں ان کو ہمدردی کی نظر دیکھا جاتا ہے۔ماضی میں کوسٹ گارڈز ،کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی سفر کی بہت سی کوششوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔
بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ اگر میانمار میں حالات سازگار ہو جائیں تو وہ روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کے خواہاں ہیں۔موجودہ حالات میں پناہ گزینوں کے لیے واپس سرحد پار جانا ناقابل قبول ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ میانمار کی حکومت پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ میانمار کو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔