کیا پیسہ بچے پیدا کرنے پر مائل کر سکتا ہے
ویسے تو اس کا انحصار آپ کے زاویۂ نظر پر ہے، مگر لگتا ہے کہ دنیا کو بچوں کی کمی کے بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ ہفتے دو ایسی خبریں آئیں جن سے لگتا ہے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتیں بچوں کی کمی کے بارے میں بہت زیادہ متفکر ہیں۔
حال ہی میں روسی صدر ولادمیر پوتین نے اعلان کیا کہ وہ روسی خواتین کو بچے پیدا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ روسی عورت کو پہلے بچے کی پیدائش پر 7,600 اور دوسرے پر 2,500 ڈالر ملیں گے۔
اسی روز 2019 میں چین میں بچوں کی پیدائش کے اعداد و شمار بھی سامنے آئے جو پچھلی چھ دہائیوں میں سب سے کم تھے۔یہ ممالک اس لیے فکرمند ہیں کہ ان کی آبادی روز بروز عمر رسیدہ ہو رہی ہے اور انھیں تشویش ہے کہ مستقبل میں کام کرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں رہے گی کہ وہ ریٹائر ہونے والوں کے اخراجات میں ہاتھ بٹا سکیں۔
بے بی بونس چین اور روس تنہا نہیں جنھیں اس صورتحال کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں شرحِ پیدائش گر رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ لوگوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے پر قائل کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟روس نے 2007 میں بے بی بونس یعنی بچے کی پیدائش پر انعام متعارف کروایا تھا۔ والدین کو دوسرا اور تیسرا بچہ پیدا ہونے پر انعام کے طور پر رقم دی جاتی تھی۔ اس کا کوئی قابلِ ذکر فائدہ نہیں ہوا۔ شرحِ پیدائش گرتی چلی گئی۔
چین نے جب 2015 میں ’ایک بچہ پالیسی‘ کے خاتمے کا اعلان کیا تو اسے توقع تھی کہ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ اُس سال معمولی سا اضافہ ہوا مگر پھر بس۔ایشیا سے کیا سبق ملتا ہے؟ایسا لگتا ہے کہ ایک بار جب لوگ کم بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیں تو پھر انھیں زیادہ پر آمادہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔جنوبی کوریا میں بچوں کی کمی شدید مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ برس اس کی شرحِ پیدائش میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔ علم شماریات کے اعتبار سے اوسطاً ایک عورت نے ایک سے بھی کم بچے کو جنم دیا یعنی صرف 0.89 بچہ فی عورت۔
ستّر کی دہائی سے ملک کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جنوبی کوریا نے دس برس سے زیادہ عرصے تک مختلف ترغیبات اور مراعات پر 70 ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی۔کِم جیے کہتی ہیں، ’مجھے بچہ پیدا کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‘ مگر والدین کے بے حد اصرار پر اب ان کا ایک بچہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ترغیبات ان کے فیصلے پر بالکل اثر انداز نہیں ہوئیں اور وہ مزید بچے نہیں پیدا کرنا چاہتیں۔یو اِن اے کا کہنا ہے، ’مجھے یہ ہی سوچ کر وحشت ہوتی ہے کہ بچے کی پیدائش میرے جسم کو کیسے متاثر کرے گی، اور کیا میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی جاری رکھ سکوں گی۔’بچے پیدا نہ کرنے کی اتنی وجوہ ہیں۔ آسمان کو چھوتی گھروں کی قیمتیں، نجی تعلیم کی بڑھتی ہوئی لاگت، اور فضائی آلودگی جیسے ماحولی مسائل۔’کوریائی معاشرے میں مادری جبّلت کی خام خیالی بہت مروج ہے۔ میرے خیال میں، میں اس توقع پر پورا نہیں اتر سکتی۔‘مالی ترغیبات کا ان کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں رہا۔ حاملہ خواتین کو پیدائش سے پہلے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے رقم ملتی ہے۔ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد انھیں 170 ڈالر ماہانہ وظیفہ ملنے لگتا ہے جو دوسرے بچے کی پیدائش پر اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ پھر بچوں کی سرکاری اور نجی نگہداشت کا انتظام بھی ہے۔حکومت اس شعبے میں جتنا بھی چاہے سرمایا لگائے ناکافی لگتا ہے۔
تعلیم کا بخارکِم یے اون، جن کے تین بچے ہیں، کہتی ہیں کہ ’جنوبی کوریا میں تعیلم کا بخار، وہ بھی نجی اور مہنگی تعلیم کا بخار زیادہ ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری امداد کے باجود ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے نہیں ہوتے۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب تک حکومت یہ مسئلہ حل نہیں کرے گی، بچے پیدا کرنے پر لوگوں کو قائل کرنا بہت مشکل ہوگا۔‘پھر کوریا میں کام میں مسابقت کا رجحان بھی بہت شدید ہے۔ایک نوجوان عورت ہونے کے ناتے پوتین کا اعلان سن کر مجھے خوشی محسوس ہوئی۔ اگرچہ اسے سن کر میں نے فوراً ہی کنبہ شروع کرنے کا فیصلہ تو نہیں کیا مگر مجھے لگا کہ اگر میں ایسا کروں تو خاصی امداد ملنے کا امکان ہے۔
روس میں 7,600 ڈالر بہت ہوتے ہیں۔ اس سے ماسکو اور سینٹ پِٹرزبرگ کو چھوڑ کر کئی دوسرے شہروں میں ایک اپارٹمنٹ کی چوتھائی قیمت ادا ہو سکتی ہے، ماسکو کی سب سے اعلٰی یونیورسٹی کی سال بھر کی فیس ادا ہو سکتی ہے۔ التبہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ پوتین کے اس اعلان سے شاکی ہیں۔ انھیں تشویش ہے کہ کچھ خواتین رقم کے لالچ میں نہ چاہتے ہوئے بھی بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔
روس کی پندرہ فی صد آبادی (145 ملین میں سے 20 ملین) خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ان میں سے اکثریت بچوں والے خاندانوں کی ہے۔نینا نظروفا, بی بی سی رشیا کی امورِ خواتین کی رپورٹر کِم جے یی، جن کا ایک دو برس کا بچہ ہے، کہتی، ’میں کبھی بھی ایک اور بچہ نہیں چاہوں گی۔ میرے لیے تو ایک بچے کو بھی پالنا اتنا مشکل ہے۔ میں بس اسی پر توجہ دینا چاہتی ہوں۔‘ انھیں حکومت سے کچھ امداد ملتی ہے مگر اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ جس کمپنی کے لیے وہ کام کرتی ہیں وہ خاصی والدین پرور ہے۔
انھیں 16 ماہ کی زچگی کی تعطیلات ملی تھیں اور دفتر کی نرسری میں انھیں جگہ بھی دی گئی۔ مگر سب کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔وہ کہتی ہیں، ’میں کئی دوستوں کو جانتی ہوں جنھوں نے بچے کی پیدائش کے بعد سماجی دباؤ کی وجہ سے کم سے کم چھٹیاں لیں۔‘بظاہر یہ جنوبی کوریا کے مخصوص مسائل لگتے ہیں مگر یہ رجحان جاپان میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چین بھی ان ہی کے نقش قدم پر چلتا نظر آ رہا ہے۔عالمی سطح پر بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ پڑھی لکھی خواتین جب ملازمت اختیار کر لیتی ہیں تو بچے ان کے لیے کمتر ترجیح بن جاتے ہیں۔انتظامی لحاظ سے بھی یہ مشکل ہو جاتا ہے۔
یوروگائے، تھائی لینڈ، ترکی اور ایران کے تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک بار کم بچے معمول بن جائیں تو پھر دھارا موڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔روس میں فی عورت شرح پیدائش 1.5 ہے جو آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے درکار 2.1 سے کہیں کم ہے۔جاپان کے ایک چھوٹے سے قصبے ناگی میں حکام خطیر ترغیبات دینے کے بعد شرح پیدائش 1.4 سے 2.8 یعنی دگنا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فِن لینڈ میں لیسٹیجاروی نامی قصے میں ہر بچے کو 12 ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں۔لیکن ایک عرصے بعد یہ بچے یونیورسٹی میں تعلیم یا کام کی تلاش میں بڑے شہروں کو چلے جائیں گے۔ اور بڑے شہر تو اپنی مہنگائی کے سبب مانع حمل ہونے کی شہرت پہلے ہی رکھتے ہیں۔یورپی ملک اسٹونیا نے بھی بے بی بونس کی مد میں کئی ملین ڈالر خرچ کیے ہیں اور اسے کچھ کامیابی بھی ملی ہے۔ تین بچوں والے کنبہ کو 573 ڈالر ماہانہ ملتے ہیں۔
آکسفورڈ انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن ایجنگ سے وابستہ ڈاکٹر لی سن کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ پیسے کا ضیاع ہے۔ میں اپنے طلبہ سے ہمیشہ پوچھتا ہوں: ’آخر لوگ زیادہ بچے پیدا کرنا ہی کیوں چاہیں گے!‘ان کا کہنا ہے کہ کہ گرتی ہوئی شرح پیدائش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کے بقول یورپ میں یہ سلسلہ چالیس برس پہلے شروع ہوا تھا جو جلد ہی ترقی یافتہ معیشتوں تک پھیل گیا، جہاں عورتوں نے وسیع خاندان پر تعلیم اور ملازمت کو ترجیح دی۔ڈاکٹر لِی سن پوچھتے ہیں کہ ‘جب ہمیں آب و ہوا میں تبدیلی جیسی مشکل درپیش ہے تو ہم عورتوں اور نوجوان جوڑوں کو زیادہ بچے پیدا پر قائل کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں’ڈاکٹر لی سن کہتے ہیں، ’میرے خیال میں سماجی سطح پر ہم ان اقدار کی جانب واپس نہیں جائیں گے، ہاں کچھ لوگ ہوں گے جو ایسا کریں گے۔‘ہم ایسا کر کیوں رہے ہیں؟ڈاکٹر لی سن کے نزدیک ’زیادہ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کر کیوں رہے ہیں؟‘امیر ملکوں میں ملازمین کی کمی کو تارکین وطن پورا کر سکتے ہیں۔ دنیا میں بڑی تعداد میں نوجوان موجود ہیں۔ کئی افریقی ملکوں اور پاکستان اور انڈیا جیسے ملکوں میں آبادی بڑھنے کی رفتار اب بھی زیادہ ہے۔مگر بعض قوم پرست اور غیروں سے نفرت کرنے والے راہنماؤں کے لیے یہ ہی مسئلے کی جڑ ہے۔
ہنگری میں یوم اطفال کے ذریعے لوگوں کو اہل خانہ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی ترغیب دی جاتی ہے.گزشتہ ہفتے ہنگری کے وزیراعظم وِکٹر اوربن نے بانجھ پن کے علاج کے مراکز کو قومیانے کے بعد اعلان کیا کہ ہنگیرین جوڑوں کو آئی وی ایف یعنی مصنوعی مدد سے حمل ٹھہرانے کی سہولت مفت دستیاب ہوگی۔ گزشتہ برس تک چار بچوں کی ماؤں کو ٹیکس میں چھوٹ تھی۔اوربن نے واضح طور پر کہا کہ وہ زیادہ سفید فام اور مسیحی بچے دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اختلاط اور نسلی تنوع نہیں چاہتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری رنگت، روایات اور قومی ثقافت دوسروں کے ساتھ خلط ملط ہوں جائیں۔‘تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ پالیسی کارگر ہوگی۔ ہنگری نے بچوں کی پیدائش کے لیے مالی ترغیبات 2005 میں متعارف کروائیں، لیکن ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس دوسرے یورپی ملکوں کو جانے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھ گئی۔
ایسے کنبوں کے لیے مالی مراعات جن کے پہلے سے بچے ہوں بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کرتیں ۔۔۔ اس دور میں زیادہ تر عورتیں کام کرنا چاہتی ہیں۔سویڈن اور فرانس نے بظاہر یہ نکتہ ثابت کر دیا ہے۔ انھوں نے کام پر واپسی میں ماؤں کو رعایت اور بچوں کی مفت نگہداشت کی سہولت دے کر اور کام کی جگہوں میں والدین دوست ماحول پیدا کرکے اپنے ہاں شرح پیدائش کو یورپ کی سطح پر رکھا ہوا ہے۔لہذا ایسی کسی بھی پالیسی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا جو مقامی باشندوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی بات کرے لیکن بجائے وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لانے کے محض نقد رقوم دینے پر اکتفا کرے۔