موسمیاتی تغیرات: جنگلی حیات اب شہروں میں کیسے رہتی ہے

جاپانی کووں نے اخروٹ کو توڑنے کے لیے گاڑیوں کی مدد لینا شروع کردیکئی صدیوں سے جاپان کے شہر سینڈائی میں، کوے اپنے پسندیدہ کھانے اخروٹ کو لے کر مصیبت میں مبتلا ہیں۔کوے اتنے طاقت ور نہیں کہ اخروٹ اپنی چونچ سے توڑ سکیں۔ اس لیے وہ اسے اونچائی پر لے جا کر زمین پر پھینکتے ہیں۔لیکن 1970 کی دہائی میں ایک سائنسدان نے دیکھا کہ کووں نے ایک نیا طریقہ اپنایا ہے۔ وہ اخروٹ کو سڑک کے بیچ میں پھینکتے جہاں گاڑیاں اس خشک میوے کو روندھ دیتیں اور کوے اسے جا کر کھا لیتے۔ پرندوں کے لیے یہ طریقے کار بہت مؤثر ثابت ہوا ہے۔شہروں کے بننے اور پھیلنے سے جانوروں کے رجحانات اور چال چلن میں جو تبدیلی آتی ہے اس کی بہترین مثال جاپان کے سینڈائی کوے ہیں۔

کئی بار یہ تبدیلی ہزاروں سال کے بجائے کچھ ہی برسوں میں آ جاتی ہے۔اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق آج کی تاریخ میں دنیا کی 55 فیصد آبادی شہروں میں رہ رہی ہے جبکہ 1960 میں دنیا کی صرف 34 فیصد آبادی شہروں میں قیام پزیر تھی۔ایک اندازے کے مطابق سن 2050 تک دنیا کی 70 فیصد آبادی شہروں میں رہ رہی ہو گی.2050 میں دنیا بھر میں شہروں میں رہنے والی آبادی کی تعداد 70 فیصد ہو جائیگی۔شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی جنگلی حیات پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔ اس سے، ان کے رہنے کی جگہوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی سے بہت سے جانوروں نے اپنے رجحانات اور چال چلن کو شہروں کے حساب سے ڈھالا ہے۔جنگلی حیات اور شہری آبادی میں اضافے کا مسئلہ آپس میں جڑا ہے اور اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ڈچ ماہرِ حیاتیات مینو شلتوزین نے اپنی کتاب ’ڈارون کمز ٹو ٹاؤن: ہاؤ دی اربن جنگل ڈرائیوز ایوولیوشن‘ میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ہم بطور انسان اس موڑ پر پہنچ رہے ہیں جہاں ہم صرف وہی نباتات اور جنگلی حیات دیکھ پائیں گے جو کہ صرف شہروں تک محدود ہوں گے۔

شلتوزین کہتے ہیں کہ اس صورت میں ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرنی چاہیے کہ شہروں میں پائی جانے والی نباتات اور جنگلی حیات صرف چند گنے چنے چرند پرند تک محدود نہ رہے۔مکڑی جو عموماً روشنی سے دور بھاگتی ہے، اب اپنے جالے شہروں میں سڑک کے کنارے لگی سٹریٹ لائٹس پر بنا رہی ہیںتیزی سے بدلتا ماحولشلتوزین اور دوسرے کئی محقق ’ہیومن انڈیوسڈ ریپڈ ایوولوشنری چینج یعنی کہ ایسی تبدیلی جو کہ کئی صدیوں کے بجائے کئی دہائیوں میں پیدا ہو کا حوالہ دیتے ہیں۔

شلتوزین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مکڑی، جو کہ عموماً روشنی سے دور بھاگتی ہے، اب اپنے جالے شہروں میں سڑک کے کنارے لگی سٹریٹ لائٹس پر بنا رہی ہیں۔ جہاں عموماً پراونے اڑتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی صرف مکڑیوں میں نہیں دیکھی گئی، پروانے بھی اب روشنی کی طرف اس طرح نہیں کھنچے آتے جیسا کے کچھ دہائیوں پہلے تک آتے تھے۔روویوں اور عادتوں میں اس طرح کی تبدیلی کئی مختلف جانداوں میں دیکھی گئی ہے۔ اور اسے اگر آپ دیکھنا چاہیں تو شہر اس تبدیلی کی بہترین مثال ہیں۔ٹورونٹو یونیورسٹی میں حیاتیات کے ماہر مارک جانسن کہتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر شہری زندگی میں ارتقا کی بہترین مثال اربنائزیشن ہے۔باز کی اس قسم نے سکائی سکریپیر یا بلند عمارتوں کے اوپر اپنے گھر بنانا شروع کر دیےمارک جانسن 2017 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ کے شریک مصنف ہیں۔ سائنسی جریدے میں چھپنے والی اس رپورٹ میں192 ایسی سٹیڈیز ہیں جن میں اربنائزیشن کے نمونوں کے بارے میں لکھا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں کچھ ایسے پرندوں کی بھی مثال ملتی ہے جنھوں نے شہری ماحول میں اپنے رہن سہن کا بندوبست کیا ہے، اس کی ایک بڑی مثال پیریگرین فیلکن ہے، یہ باز کی ایک قسم ہے جس کی نصل بیسویں صدی کے دوران ذرعی ادویات کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئی۔

یہ باز، ان چھوٹے پرندوں کا شکار کرتے تھے جو کہ چھوٹے کیڑوں کو کھاتے تھے۔ یہ کیڑے ذرعی دوائی ڈی ڈی ٹی سے پہلے ہی متاثر ہوئے ہوتے تھے۔
ڈی ڈی ٹی پر پابندی اور مصنوعی طریقوں سے پیداوار بڑھانے کے منصوبوں پر پابندی کے بعد باز کی نسل میں دوبارہ اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن اس وقت تک باز شہروں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انھوں نے بلند عمارتوں کے اوپر اپنے گھر بنانا شروع کردیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے شہر میں ہی اپنے کھانے پینے کا بندوبست بھی کرلیا، وہ شہر میں پائے جانے والے کبوتر اور چمگاڈروں کا شکار کرنے لگے۔ جو کہ شہر میں بہت زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

بڑی اور لمبی چونچیںمشہور ماہرِ حیاتیات چارلس ڈارون نے پرندوں کی چونچوں پر تحقیق کی تھی جس کا علمِ حیاتیات کی تاریخ میں حوالہ ملتا ہے۔ انھوں نے پرندوں پر تحقیق گالابگوں کے جزیرے پر کی اور اس سے انھیں اپنا تحقیقی نظریہ بنانے میں مدد ملی۔

اس تحقیق کو ڈارونز فنچز یعنی ڈارون کی چونچیں بھی کہا جاتا ہے۔ اس جزیرے پر پائے جانے والے پرندے مختلف اقسام کے تھے، ان کی چونچیں بھی الگ الگ شکل اور ناپ کی تھی۔ جو کہ مختلف جزائر پر طرح طرح کے کھانے چگنے میں انھیں مدد دیتی۔

حال ہی میں محققین کی نظر امریکی شہر ایریزونا میں پائے جانے والے پرندے ٹسکن پر پڑی۔ جس کی چونچ اس کے جنگلی نسل کے مقابلے میں خاصی الگ نظر آتی ہے۔

ٹسکن کی چونچ لمبی اور چوڑی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پرندے سورج مکھی کے بیجوں تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔
زیر زمین کیڑےکلن پائپن عام طور پر زمین کے اوپر رہتے ہیں.کیولکس پائپینز مچھر کی ایسی قسم ہے جو کہ دنیا بھر میں بہت عام ہے۔یہ کیڑِے اس وجہ سے مشہور ہیں کہ وہ ماحول کے ساتھی تیزی سے اپنا رہن سہن اور رویہ تبدیل کرتے ہیں۔کلن پائپن عام طور پر زمین کے اوپر رہتے ہیں اور اسی مچھر کی ایک اور قسم کیولکس مولیسٹس انسانوں کی بنائی ہوئی جگہوں یا زیر زمین جگہوں پر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ان دونوں میں ایک اور فرق بھی ہے کیولکس پائپینز پرندوں کو کاٹتے ہیں اور کیولکس مولیسٹس انسانوں کو۔شہری دوسری جنگِ عظیم کے دوران لندن انڈرگراؤنڈ کی سرنگوں میں پناہ لیتے ہوئےاس مچھر کا نام ویسے تو کیولکس ہے لیکن اسے عام طور پر لندن انڈرگراؤنڈ ماسکیٹو کہا جاتا ہے۔اس کا یہ نام برطانوی دارلحکومت لندن کے ٹرین سسٹم کے نام پر اس لیے پڑا کیونکہ جب دوسری جنگِ عظیم میں جرمن نے برطانیہ پر بم برسائے تو شہری آبادی نے لندن انڈرگراؤنڈ کی سرنگوں میں پناہ لی۔

یہاں پر لوگوں نے بتایا کہ انھیں یہ مچھر کاٹ رہے ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ کیولکس مولیسٹس یا لندن انڈرگراؤنڈ ماسکیٹو نے شہری علاقوں میں اپنے رہن سہن کا بندوبست کر لیا جہاں گندہ پانی اور بقا ہوا کھانا وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔لیکن اس مچھر کے خون کے پیاسے ہونے کے باوجود یہ لندن انڈرگراؤنڈ استعمال کرنے والے ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کی شکایات کی فہرست میں شامل نہیں۔1960 میں ماحولیاتی نظام اور آب و ہوا معیار میں بہتری کے بعد بھورے رنگ کے پروانے دوبارہ نظر آنے لگے.پیپرڈ موتھ یا پروانے بھی شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کے بعد اپنے رہن سہن میں تبدیلی کرنے والے کیڑوں میں شامل ہے۔برطانیہ میں صنعتوں میں اضافے کے دوران پروانوں نے شہری علاقوں کا رخ کیا۔ سیاہ پروانوں نے فیکرٹیوں سے نکلنے والے کالے دھویں کی آڑ میں پناہ لی اور اس طرح شکار کرنے والے جانوروں سے بچے۔ جبکہ بھورے رنگ کے پروانوں نے درختوں کی شاخوں پر جمنے والے جراثیم میں اپنا گھر بنایا تاہم یہاں انھیں پرندوں کے لیے ڈھونڈنا آسان ہوگیا اور آہستے آہستے بھورے رنگ کے پروانے کم ہونے لگے۔

لیکن 1960 میں ماحولیاتی نظام اور آب و ہوا کے معیار میں بہتری کے بعد بھورے رنگ کے پروانے دوبارہ نظر آنے لگے۔شہری مینڈکٹنگارا مینڈک، میکسیکو سے لے کر شمال جنوبی امریکا کے گرم علاقوں کے جنگلات میں پائے جاتے ہیں اور نر مینڈک ایک خاص آواز نکالتے ہیں تاکہ وہ مادہ مینڈک کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔لیکن یہ خاص آواز شکاریوں کو بھی انھیں ڈھونڈنے میں مدد کرتی ہے۔شہروں میں رہنے والے مینڈکوں کو شکاریوں سے بھی خطرہ نہیںلیکن محققین نے یہ دیکھا کہ شہروں میں رہنے والے مینڈکوں نے، جنگل میں پائے جانے والوں کے مقابلے میں اس خاص آواز میں تبدیلی کر کے مختلف نئی آوازیں بنائی ہیں جس سے وہ مادہ مینڈکوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ شہروں میں رہنے والے مینڈکوں کو شکاریوں سے بھی خطرہ نہیں۔کالے پرندےشہروں میں پائے جانے والے پرندے نہ صرف خود چھوٹے ہیں بلکہ ان کی چونچیں بھی چھوٹی ہیں.ٹرڈس میرولا پر دنیا میں سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ہے اور اس کالے پرندے کا شمار دنیا کے سب سے پرانے پرندوں میں ہوتا ہے۔شہروں میں رہنے والے ان پرندوں میں دیہات کی نسبت زیادہ تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ ڈچ ماہرِ حیاتیات مینو شلتوزین کے مطابق یورپ اور شمالی افریقہ میں ان پرندوں میں اتنی زیادہ تبدیلی آرہی ہے کہ یہ اب بلکل نئی قسم کے پرندے بن رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ان پرندوں میں یہ فرق لیباٹری میں دیکھا گیا جہاں پر اس پرندے کی شہری اور جنگلی نسلوں کی ابتدا سے چوزوں کی شکل میں نشوونما کی گئی۔ اور دونوں اقسام کے چوزوں کو بلکل ایک جیسے حالات میں رکھا گیا۔یہاں یہ پتا چلتا ہے کہ ان پرندوں میں جو فرق ہے وہ پیدائشی ہے اور یہ، ان کے رہن سہن کی وجہ سے نہیں۔شہروں میں پائے جانے والے پرندے نہ صرف خود چھوٹے ہیں بلکہ ان کی چونچیں بھی چھوٹی ہیں اور یہ موسمِ سرما میں ہجرت نہیں کرتے۔اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شور سے پیدا ہونے والی آلودگی سے ان پرندوں کے گانے کے وقت پر بھی اثر پڑا ہے۔جنگلی پرندے فجر کے وقت گاتے ہیں جبکہ ان کے شہری ساتھی سورج طلوع ہونے سے گھنٹوں پہلے آوازیں نکالنا شروع کردیتے ہیں۔

چھپکلیپورتو ریکو میں پائے جانے والی چھپکلی اینول بھی جانوروں میں شہری نظام کے باعث تبدیلی کی ایک اچھی مثال ہےپورتو ریکو میں پائے جانے والی چھپکلی اینول بھی جانوروں میں شہری نظام کے باعث تبدیلی کی ایک اچھی مثال ہے۔عموماً یہ چھپکلیاں درختوں اور چٹانوں پر پائی جاتی تھیں لیکن ماحولیات میں تبدیلی کے بعد پتھروں اور شاخوں پر چڑھنے والی انھی چھپکلیوں کو ہموار دیواروں اور کھڑکیوں پر چڑھنا پڑا۔اس نسل کی شہری چھپکلی میں اس چیلینج کی وجہ سے تبدیلی دیکھی گئی اور ان کی ٹانگیں لمبی اور چپکنے والی ہو گئیں۔واشنگٹن یونیورسٹی میں حیاتیات کی ماہر کرسٹن ونچل چھپکلیوں کی تحقیق میں مہارت رکھتی ہیں۔شہروں میں رہنے والی چھپکلی جنگلات کی نسبت مختلف ہےوہ کہتی ہیں کہ شہری چھپکلیوں کی ٹانگیں مختلف ہوتی ہیں اور انھوں نہ متعدد بار لیباٹری میں چھپکلیوں کو ریس کرتے دیکھا ہے۔ اس ریس میں شہری چھپکلی ہمیشہ، باآسانی سے جنگلی چھپکلی کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔وہ کہتی ہیں ’یہ بہت ہی حیرت انگیز بات ہے کہ چھپکلیاں قدرتی ماحول کی غیر موجودگی میں کیسے شہروں میں اپنا گھر بنا لیتی ہیں اور اپنی عادتیں اور رہن سہن میں تبدیلی کرتی ہیں۔ تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ اب یہ پہلے سے بھی زیادہ گرم موسم میں رہ سکتی ہیں‘۔لیکن ان سب کے باوجود سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جانور آرام سے بدل جائیں گے یا اپنے رہنے کا انتظام خود ہی کرلیں گے۔ ہمیں بڑھتے اور تیزی سے بدلتے ہوئے شہری نظام میں جانوروں اور چرند پرند کی جگہ بنانی ہو گی۔